VideosZakir Naik
The Christian Missionaries’ Wicked Ways to Infiltrate the Muslim Community – Dr Zakir Naik
The Christian Missionaries’ Wicked Ways to Infiltrate the Muslim Community – Dr Zakir Naik
Follow us in :
#zakirnaik #drzakirnaik
source
👉👉 Matius 22:29-30 ✝️💞
01
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
؏ اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں!
تو یہ سمجھ لیجیے کہ اقامت دین کا اصل مقصد اقامتِ عدل و قسط ہے۔ {لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ } ’’تاکہ لوگ عدل پر کاربند ہوں‘‘ اور اگر کوئی اس میں آڑے آتا ہے تو بگڑے تگڑوں کے علاج کے لیے ہم نے تلوار بھی اتاری۔ {وَ اَنۡزَلۡنَا الۡحَدِیۡدَ ۔۔۔} چنانچہ {وَ اُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ ؕ } کا مفہوم سمجھنے کے لیے سورۃ الحدید کی آیت ۲۵ کو یہاں مندرج مانیے، یہ عدل صرف نصاریٰ اور یہود کے مابین نہیں ہے‘ یہ عدل تو طبقات کے مابین ہے‘ یہ عدل مرد اور عورت کے مابین ہے‘ یہ عدل جماعت اور فرد کے مابین ہے‘ یہ عدل اجتماعیت اور انفرادیت کے مابین ہے‘ یہ عدل سرمائے اور محنت کے مابین ہے‘ یہ عدل حکومت اور شہریوں کے مابین ہے۔
دین
۔۔۔
قرآن مجید اور فرمودات نبویہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اسلام کو ایک دین ( طرز زندگی یعنی Way of life) )قرار دیا گیا ہے۔
اِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الإِسْلام} (آل :عمران (۱۹) اسکے علاوہ قرآن مجید میں "دین" کا لفظ درج ذیل معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے۔
1۔ بدلہ : جیسے سورۃ الفاتحہ میں { مَلِكِ يوم الدين{۔
2۔لین دین : جیسے سورۃ البقرۃ میں فعل کی شکل میں {تدا ينتم}
3۔ راستہ : جیسے سورۃ الکافرون میں {لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِى دِين }
4۔قانون : جیسے سورہ یوسف میں {فِي دِينِ الملك{
قرآن مجید جس ماحول و خطہ زمین حجاز میں نازل ہوا اس وقت آج کی ٹیکنالوجی اور مصروف زندگی کے ساتھ ساتھ سودی معاشی نظام کا غلبہ و معاشرتی قوانین پر عالمی اداروں اور معاشرے پر ملٹی نیشنل کمپنیز کی ضرر رساں مصنوعات و شیطانی میڈیا کا کنٹرل نہیں تھا ۔ کثیر اہل علم کی رائے میں اسلامی معاشرتی قوانین اور معاشی نظام سے پہلے شریعت کا مفہوم ہاتھ کاٹنے اور کوڑے لگانا ہی صرف بیان کرنا لوگوں کو شریعت سے متنفر و بد زن کرنے کے مترادف ہو سکتا ہے ۔
ملٹی نیشل کمپنیز کے مصنوعات نے انسانی صحت ،شیطانی میڈیا کے کنٹرول میں خواتین و حضرات کی ذہین سازی اور سودی معاشی نظام نے انسانی زندگی اجیران بنا کر رکھ دی ہے جس میں دوبارہ اسلام کے عادلانہ "نظام عدل وقسط "کے قیام کے لیے محنت جدوجہد کرنا ایک بندہ مومن کے لیے ایک چیلج سے کم نہیں تاہم اللہ تعالی کی توفیق سے آج بھی مختلف فورمز پر لوگ اس جدوجہد میں ہر ممکن کوشش میں اپنی سعی و کوشش کر نے میں مصروف عمل ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عرضِ مرتّب
ایک بندۂ مؤمن کا اصل نصب العین رضائے الٰہی کا حصول اور محاسبۂ اُخروی میں کامیابی ہے۔
02
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نصب العین کو حاصل کرنے کے لیے قرآن حکیم اور سنّت و سیرتِ رسولﷺسے ہمیں دین کے تقاضوں اور مطالبوں کی صورت میں دینی فرائض اور ان کے لوازم کا ایک مکمل خاکہ ملتا ہے۔
لیکن اُمّت مسلمہ کا المیہ یہ ہے کہ مرورِ زمانہ کے ساتھ جب دینی فرائض اور اُن کے لوازم کا یہ مکمل اور جامع خاکہ نظروں سے اوجھل ہو گیاتو اسلام محض چند عقائد‘ عبادات اور معاشرتی رسومات کا مجموعہ بن کر رہ گیا۔
بانی ٔ تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد حفظہ اللہ پر اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی فضل و کرم اور انعام و احسان ہوا ہے کہ اس درویش خدامست نے دورِ حاضر میں اُمّتِ مسلمہ کو اس کا بھولا ہوا سبق یاد دلانے کے لیے ایک طرف رجوع الی القرآن کی تحریک چلائی اور دروسِ قرآن و دورۂ ترجمۂ قرآن کے ذریعے دنیا بھر میں قرآن حکیم کے علم و حکمت اور مطالب و معانی کی وسیع پیمانے پر تشہیر و اشاعت کا اہتمام کیااور دوسری طرف قرآن حکیم پر غور و تدبر کے نتیجے میں حاصل ہونے والے دینی فرائض کے جامع تصور کو نہ صرف عام کیا اور سنت و سیرتِ رسولﷺ کی روشنی میں ان فرائض کے لوازم اور تقاضوں کو واضح کیا‘ بلکہ ان دینی فرائض کی ادائیگی کے لیے ایک اسلامی انقلابی جماعت ’’تنظیم اسلامی‘‘ بھی قائم کی۔
ایک مسلمان کے سامنے یہ بات واضح کرنے کے لیے کہ اُس کے دین کے اُس سے کیا تقاضے ہیں اور اس کا ربّ اُس سے کیا چاہتا ہے‘یعنی عبادتِ ربّ‘ شہادت علی الناس اور اقامتِ دین‘ محترم ڈاکٹر صاحب نے قرآن کریم کی فکری و عملی راہنمائی پر مبنی مطالعۂ قرآن حکیم کا ایک منتخب نصاب مرتب فرمایا اور متعدد بار اس کے مفصل اور مختصر دروس دیے۔
ان دروس کا ایک سلسلہ چوبیس کتابچوں اور ایک ضخیم کتاب (سورۃ الحدید کی مختصر تشریح) کی صورت میں شائع ہو چکا ہے۔ اس منتخب نصاب کو دعوت رجوع الی القرآن اور تنظیم اسلامی کی دعوت و تحریک کی اساس کی حیثیت حاصل ہے۔
اس کے علاوہ محترم ڈاکٹر صاحب نے مطالعۂ قرآن حکیم کا منتخب نصاب (دوم) بھی مرتب فرمایا جو اقامت دین کے لیے جدوجہد کرنے والی جماعت کے اوصاف اور تنظیمی مسائل کے ضمن میں ہدایات پر مشتمل ہے۔
منتخب نصاب (اوّل) کے تیسرے حصے میں انفرادی سیرت و کردار کے اعتبار سے قرآن کے انسانِ مطلوب کے بنیادی اوصاف سے متعلق مقامات بھی شامل کیے گئے ہیں اور اس کے تکمیلی اوصاف کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔
اس کا حصہ ٔچہارم جہاد و قتال فی سبیل اللہ کے مباحث پر مشتمل ہے اور اس میں قرآن حکیم کے وہ مقامات شامل ہیں جن سے غلبۂ دین کے لیے جدوجہد کی فرضیت واضح ہوتی ہے‘ جبکہ حصہ پنجم مباحث صبر و مصابرت پر مشتمل ہے۔
البتہ یہ بحث کہ اقامتِ دین کی جدوجہد کرنے والے اہل ایمان کے اندر جو خصوصی اوصاف پیدا ہونے لازم ہیں وہ کیا ہیں؟ اور یہ کہ اس فریضے کی ادائیگی کے لیے قائم کی جانے والی جماعت کے ضمن میں قرآنی رہنمائی‘ یہ بحث ابھی تشنہ تھی چنانچہ اس منتخب نصاب (دوم) میں اقامتِ دین کی جدوجہد کے لیے جن اضافی اور خصوصی اوصاف کی ضرورت ہے۔
03
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ صرف یہ کہ اُن سے متعلق مقامات کو شامل کیا گیا ہے بلکہ مزید برآں اقامت دین کی انقلابی جدوجہد میں قیامِ جماعت‘ التزامِ جماعت‘ نظم کے تقاضے ‘ امیر اور مأمورین کا باہمی رشتہ اور ان کے حقوق و فرائض جیسے نہایت اہم موضوعات کو بھی شاملِ نصاب کیا گیا ہے۔
پیش نظر کتاب ’’ اقامت دین کی جدوجہد کرنے والی حزبُ اللہ کے اوصاف اور امیر و مأمورین کا باہمی تعلق‘‘ مطالعۂ قرآنِ حکیم کے منتخب نصاب (دوم) کے دس دروس پر مشتمل ہے جو محترم ڈاکٹر اسرار احمد حفظہ اللہ نے تنظیم اسلامی کی ایک خصوصی تربیت گاہ (منعقدہ اپریل۱۹۸۶ء) میں ارشاد فرمائے تھے۔
ان خطابات (دروس) کو مرتب کر کے تحریری صورت میں پیش کرنے کی سعادت راقم الحروف کے حصے میں آئی ہے۔
خطابات کی ترتیب و تسوید اور تخریج احادیث کے ضمن میں راقم کو شعبہ مطبوعات قرآن اکیڈمی لاہور کے ادارتی معاون جناب طارق اسماعیل ملک کا تعاون حاصل رہا ہے۔
ترتیب و تسوید کے بعد یہ دروس قبل ازیں ۰۴۔۲۰۰۳ء کے دوران ماہنامہ میثاق میں شائع کیے جا چکے ہیں اور اب نظر ثانی کے ساتھ انہیں کتابی صورت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ اس کاوش کو محترم ڈاکٹر صاحب اور ہم سب کے لیے اپنی رضا کے حصول کا ذریعہ اور توشۂ آخرت بنائے۔ آمین!
۲۰ جون۲۰۰۶ء حافظ خالد محمود خضر
مدیر شعبہ مطبوعات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب
درس۱
اقامتِ دین کی فرضیت اوراس کےلیےزورداردعوت
درس۲
اقامتِ دین کےلیےکام کرنےوالوں کےمطلوبہ اوصاف
درس۳
اقامتِ دین کی جدوجہدکرنےوالوں کےمطلوبہ اوصاف
درس۴
’حزبُ اللہ‘کی تشکیل میں فیصلہ کن عامل بمقابلہ’حزبُ الشیطان‘
درس۵
اقامتِ دین کی جدوجہدکرنےوالی جماعت کی ہیئت ترکیبی اورتنظیمی اساس
درس۶
04
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بگڑےہوئےمسلمان معاشرےمیں اسلامی انقلاب کےلیےآخری اقدام کاعنوان:
’نہی عن المنکر‘اور’محافظت حدوداللہ‘کےضمن میں طاقت کامظاہرہ اورچیلنج
درس۷
’اطاعت امر‘بمقابلہ’تنازُع فی الامر‘
درس۸
جماعتی زندگی کےمہلک ترین مرض’’نجویٰ‘‘
کی حقیقت اوراللہ کی جانب سےاس کی شدیدمذمت
درس۹
نظم جماعت کی پابندی اور
اس سےرخصت اورمعذرت کامعاملہ
درس۱۰
امراءکااپنےرفقاءکےساتھ طرزِعمل اوراُسوۂ رسولﷺ
درس ۱
اقامت ِ دین کی فرضیت اور اِس کے لیے زوردار دعوت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمدہٗ ونصلّی علٰی رَسولہِ الکریم … امَّا بَعدُ:
اعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم … بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
{شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا وَّ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ وَ مَا وَصَّیۡنَا بِہٖۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰۤی اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ کَبُرَ عَلَی الۡمُشۡرِکِیۡنَ مَا تَدۡعُوۡہُمۡ اِلَیۡہِ ؕ اَللّٰہُ یَجۡتَبِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یُّنِیۡبُ ﴿۱۳﴾وَ مَا تَفَرَّقُوۡۤا اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّکَ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی لَّقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اُوۡرِثُوا الۡکِتٰبَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ مُرِیۡبٍ ﴿۱۴﴾فَلِذٰلِکَ فَادۡعُ ۚ وَ اسۡتَقِمۡ کَمَاۤ اُمِرۡتَ ۚ وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَہُمۡ ۚ وَ قُلۡ اٰمَنۡتُ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنۡ کِتٰبٍ ۚ وَ اُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ ؕ اَللّٰہُ رَبُّنَا وَ رَبُّکُمۡ ؕ لَنَاۤ اَعۡمَالُنَا وَ لَکُمۡ اَعۡمَالُکُمۡ ؕ لَا حُجَّۃَ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ ؕ اَللّٰہُ یَجۡمَعُ بَیۡنَنَا ۚ وَ اِلَیۡہِ الۡمَصِیۡرُ ﴿ؕ۱۵﴾}
(الشورٰی) صدق اللہ العظیم
چند تمہیدی امور
05
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِن صفحات میں ہم مطالعۂ قرآن حکیم کے اس منتخب نصاب نمبر ۲ کا سلسلہ وار مطالعہ کریں گے جو خاص طور پر اقامت دین یا ’’اظہارُ دینِ الحقّ علی الدِّینِ کُلِّہٖ‘‘ کے لیے قائم ہونے والی اجتماعی قوت یا جماعت سے متعلق مسائل سے بحث کرتا ہے۔
ہمارا بنیادی منتخب نصاب جو ہماری پوری دعوت و تحریک کی اساس بنا ہے‘ اس سے آپ میں سے ہر شخص بخوبی واقف ہے۔
اس میں جہاں تک اوصاف کا تعلق ہے ‘ افراد میں جو اوصاف مطلوب ہیں ان کا ذکر اعمالِ صالحہ کے ضمن میں آتا ہے کہ ایمان کا جو نتیجہ انسان کے سیرت و کردار اور اس کے اعمال میں رونما ہونا چاہیے اور اس کے جن اثرات و ثمرات کا ظہور انسانی شخصیت میں ہونا چاہیے وہ کیا ہیں۔
اس منتخب نصاب کے تیسرے حصّہ میں سب سے پہلے ہم نے انفرادی کردار اور انفرادی سیرت سے متعلق مقامات شامل کیے کہ ازروئے قرآن ایک فرد کی سیرت کن اساسات پر تعمیر ہو گی اور ایک پورے طور سے تعمیر شدہ انسانی شخصیت‘ تعمیر شدہ انسانی خودی‘ یا ایک پوری طرح mature انسان ‘جو قرآن کا انسانِ مطلوب ہے ‘اس کی شخصیت کے خدوخال کیا ہیں۔
چنانچہ ایک فرد کے اعتبار سے ابتدا اور انتہا ‘ یعنی بنیادی اوصاف اور تکمیلی اوصاف کو منتخب نصاب میں شامل کیا گیا۔
جہاں تک بنیادی اوصاف کا تعلق ہے سورۃ المؤمنون کی ابتدائی گیارہ آیات اور ان کی بالکل ہم مضمون سورۃ المعارج کی آیات کے حوالے سے ہم نے یہ سمجھا کہ وہ عمل صالح جو انسان کی شخصیت میں پیدا ہونا چاہیے ‘اس کی اساسات کیا ہیں۔
یعنی عمل صالح کے اعتبار سے شخصیت کی تعمیر کن بنیادوں پر ہو گی۔
پھر ایک بندۂ مؤمن کی پختہ اور پوری طرح تعمیر شدہ شخصیت کی جھلک ہمارے سامنے سورۃ الفرقان کے آخری رکوع میں ’’عباد الرحمن‘‘ کے اوصاف کی صورت میں آ گئی‘ جہاں ا س کی پوری طرح تکمیل شدہ و تیار (finished) او ر ہر اعتبار سے پختہ (mature) حالت کی کامل تصویر کشی کر دی گئی۔
ہمارے اس منتخب نصاب کا حصّہ چہارم جہاد و قتال فی سبیل اللہ کے مباحث پر مشتمل ہے۔ چنانچہ اس میں قرآن حکیم کے وہ مقامات شامل ہیں جن میں دین کے غلبہ کے لیے جدوجہد کی فرضیت واضح ہوتی ہے۔
اس جدوجہد سے جی کترانے کا جو نتیجہ نکلتا ہے‘ یعنی نفاق‘ اس کے اعتبار سے سورۃ المنافقون شاملِ نصاب کی گئی ہے۔
پھر یہ کہ اقامتِ دین یا غلبۂ دین کی جدوجہد کے ضمن میں اساسی منہاج سورۃ الجمعۃ میں بیان ہوا ہے۔ چنانچہ یہ مقامات اس میں شامل ہیں۔
مطالعۂ قرآن حکیم کے منتخب نصاب کا حصّہ پنجم مباحث صبر و مصابرت پر مشتمل ہے۔
06
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ حصّہ تواصی بالصبر سے متعلق ہے کہ غلبۂ دین کی جدوجہد میں بندۂ مؤمن کو جو تکالیف و مصائب‘ ابتلاء ات اور آزمائشیں پیش آتی ہیں ان میں ثابت قدم رہنے کی ضرورت و اہمیت کے ضمن میں ہمیں قرآن مجید سے کیا ہدایات ملتی ہیں۔ لیکن اگر آپ غور کریں گے تو یہ بات سامنے آ جائے گی کہ وہاں ایک خلا رہ گیاتھا۔
اور وہ یہ کہ اقامت دین کی جدوجہد کرنے والوں کو اپنے اندر جو خصوصی اوصاف پیداکرنے لازم ہیں وہ کیا ہیں؟ اگر ان اوصاف میں کوئی کمی رہ گئی تو وہ ایک اچھا انسان توہو گا‘ اچھا مسلمان بھی ہو گا‘ اس کی شخصیت کے اندر ایک دلآویزی بھی پیدا ہو جائے گی‘ اور عبادالرحمن کے جو اوصاف بیان ہوئے ہیں وہ اپنے سیرت و کردار میں پیدا کر لے تو وہ یقینا اللہ کا محبوب بندہ بھی ہو گا اور وہ عبد الرحمن کہلانے کا مستحق ہو جائے گا‘ لیکن وہ اس جدوجہد میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ ہر سطح پر کچھ نئے تقاضے ابھر کر سامنے آتے ہیں۔
چنانچہ اقامت دین کی جدوجہد‘ جہاد فی سبیل اللہ‘ اللہ کے دین کو سربلند کرنے کی جدوجہد کے ضمن میں جن اضافی اور خصوصی اوصاف کی ضرورت ہے ان کو ہم نے اس منتخب نصاب نمبر ۲ میں شامل کیا ہے اور اس طرح جو خلا وہاں رہ گیا تھا اُسے پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔
اسی طرح‘ جیسا کہ ہمیں معلوم ہے‘ اقامت دین کی جدوجہد ایک انقلابی جدوجہد ہے۔ لہذا قیامِ جماعت‘ التزامِ جماعت‘ نظم کا قیام‘ امیر اور مأمور کا باہمی رشتہ جیسے موضوعات اس انقلابی جدوجہد کے لوازم میں سے ہیں۔
یہ موضوع از خود نہایت اہم ہے کہ اس جماعت کی بنیاد کیا ہے‘ اس کی اساس کیا ہے‘ یہ کس طرح وجود میں آتی ہے‘ اس کا دستور کیا ہے‘ اس میں امیر کے حقوق اور اس کے فرائض کیا ہیں‘ مأمورین کے حقوق و فرائض کیا ہیں اور ان کے باہمی مشورے کا نظام کیا ہو گا! اقامت دین کی جدوجہد کے ضمن میں یہ نہایت اہم موضوعات بھی ہمارے اس بنیادی منتخب نصاب میں موجود نہیں تھے۔
تو اصل میں اس خلا کو پُر کرنے کے لیے یہ منتخب نصاب (۲) ترتیب دیا گیا ہے‘ جسے آپ چاہیں تو اُ سی منتخب نصاب کا ضمیمہ یا تتمہ سمجھ لیں۔
اِس منتخب نصاب کی ترتیب کے وقت میرے ذہن میں ایک پلان تھا‘ جس میں سب سے پہلی چیز یہ پیش نظر تھی کہ قرآن حکیم کی روشنی میں ہم پر واضح ہوجائے کہ دین کے ہم سے کیا تقاضے اور مطالبے ہیں!یعنی ہمارا دین ہم سے چاہتا کیا ہے! یہ چیز ہمارے سامنے رہے تو پھر ہم امکانی حد تک‘ جیسے جیسے اللہ تعالیٰ کی توفیق اور تائید شاملِ حال ہوتی جائے‘ ان تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کمر بستہ ہوں ۔ اس کی اہمیت پر میں نے بہت سے مواقع پر تقریریں کی ہیں اور دروس دیے ہیں‘ اس لیے میں زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا ۔
اگر یہ تصور ہی واضح نہ ہو تو ہو سکتا ہے کہ ہم کسی درمیانی منزل کو آخری منزل سمجھ کر مطمئن ہو کر بیٹھ رہیں۔ ورنہ ہمارے سامنے یہ بات تو رہے گی کہ عچلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی! اور یہ چیز ہمیں آگے سے آگے بڑھاتی رہے گی۔
لہذا ہمیں اپنی منزل متعین کرنی ہے اور بلند ترین ہدف کے اعتبار سے اس کا تعین کرنا ہے۔
07
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی یہ کہ چلنا قدم بقدم ہے۔
اگر ہم نے کچھ سیڑھیاں پھلانگ کر اوپر چڑھنے کی کوشش کی تو گرنے کا شدید اندیشہ ہے۔ چنانچہ دو چیزیں ایسی ہیں کہ ان میں توازن کی ضرورت ہے۔
ایک تو یہ کہ منزل بلند ہو‘ اور دوسرے یہ کہ چلنے کے اندر جو بھی تدریج مطلوب ہے اس کو ہم نظر انداز نہ کریں۔
اور یہ دونوں چیزیں بیک وقت ہونی چاہئیں۔ یہی وجہ ہے کہ اصلا ً اس منتخب نصاب (۲) کے درس اوّل کا عنوان ’’ فرائض دینی کا جامع تصور‘‘ ہے اور یہ ہے اصل میں وہ ربط جو منتخب نصاب (۱) سے قائم ہوتا ہے‘ جس کا میں حوالہ دے چکا ہوں۔
اسی لیے یہاں پہلے سورۃ الحج کی آخری دو آیات کا ذکر ہے۔
یہ ہمارے منتخب نصاب کا ایک بڑا مرکزی درس ہے۔
مطالعۂ قرآن حکیم کے منتخب نصاب کا چوتھا حصہ جب شروع ہوتا ہے ‘تو اس حصے کا پہلا سبق یہی سورۃ الحج کا آخری رکوع ہے۔
اس کی پہلی چار آیات میں ایمانیات کی بحث ہے اور آخری دو آیات میں اب وہ تقاضے ہیں کہ اللہ چاہتا کیا ہے؟ چنانچہ ایک آیت میں تابڑ توڑ چار حکم ہیں: {یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ارۡکَعُوۡا وَ اسۡجُدُوۡا وَ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمۡ وَ افۡعَلُوا الۡخَیۡرَ }
’’اے ایمان والو! رکوع کرو‘ سجدہ کرو ‘ اپنے ربّ کی عبادت کرو اور بھلائی کے کام کرو‘‘۔
یہ ہمارے فرائض دینی کی اوّلین سطح ہے :اللہ کی بندگی‘ اچھے اعمال اور اچھے کردار کو اختیار کرنا اور رکوع و سجود۔ یعنی ارکانِ اسلام پر کاربندہونا۔
اس کے بعد اگلی آیت میں دوسری منزل کا ذکر ہے۔
وہ دوسری منزل جہاد فی سبیل اللہ کی پہلی منزل ہے۔
فرائض دینی کی پہلی سطح پر بھی لفظ ’’مجاہدہ‘‘ استعمال تو ہوتا ہے‘ مجاہدہ مع النفس نہیں کریں گے تو اللہ کے بندے کیسے بنیں گے؟ حرام سے کیسے بچیں گے؟ نفس کے خلاف جہاد کرنا ہے‘ لیکن اس کے لیے ’’فی سبیل اللہ‘‘ کی اصطلاح قرآن و حدیث میں نہیں ہے۔
وہ اپنے نفس سے مجاہدہ ہے‘ کشمکش ہے‘ تاکہ اسے اللہ کی اطاعت کا خوگر بنایا جائے۔ لیکن ’’جہادفی سبیل اللہ‘‘ جو ایک مستقل اور مکمل اصطلاح بنتی ہے‘ اُس کی پہلی منزل‘ جو فرائض دینی کے اعتبار سے دوسری منزل ہے‘ وہ شہادت علی الناس ہے۔
08
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرمایا: {وَ جَاہِدُوۡا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ؕ} ’’جہاد کرو اللہ کے لیے جتنا کہ اس کے لیے جہاد کا حق ہے‘‘۔ {ہُوَ اجۡتَبٰىکُمۡ وَ مَا جَعَلَ عَلَیۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ مِنۡ حَرَجٍ ؕ } ’’اس نے تمہیں چن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی‘‘ {مِلَّۃَ اَبِیۡکُمۡ اِبۡرٰہِیۡمَ ؕ} ’’قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیم کی ملت پر‘‘۔
{ہُوَ سَمّٰىکُمُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ۬ۙ مِنۡ قَبۡلُ وَ فِیۡ ہٰذَا } ’’اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام مسلم رکھا تھا اور اس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے)‘‘۔
آگے بیان کیا جا رہا ہے کہ اس جہاد فی سبیل اللہ کی غرض و غایت کیا ہے۔ اس کی غایتِ اولیٰ ہے: {لِیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَہِیۡدًا عَلَیۡکُمۡ وَ تَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ۚۖ } ’’تاکہ رسول گواہ بنیں تم پر اور تم گواہ بنو پوری نوعِ انسانی پر‘‘۔
رسول اتمامِ حجت فرمائیں تم پر اور تم اتمامِ حجت کرو پوری نوعِ انسانی پر۔
تو یہ گویا کہ ہمارے فرائض دینی ہیں۔ یہ دوسری منزل متعین ہو گئی۔
اس پر تفصیلی درس دینا اس وقت مقصود نہیں ہے‘ اس لیے کہ یہ ہمارے منتخب نصاب (۱) کا اہم درس ہے‘ اس کے بے شمار کیسٹس موجود ہیں اور بہت مرتبہ آپ حضرات نے یہ درس خود مجھ سے براہِ راست بھی سنا ہو گا۔
اب اس کے بعد تیسری منزل آتی ہے‘ جس کے لیے ہمارے اس منتخب نصاب(۱) میں اہم ترین اصطلاح ’’اظہار دین الحق علی الدین کلہٖ‘‘ ہے۔ یعنی دینِ حق کو پورے کے پورے دین پر‘ پورے نظامِ زندگی پر غالب کر دینا۔
اس منتخب نصاب میں سورۃ الصف اسی موضوع پر مشتمل ہے اور یہ آیت اُس کا عمود ہے‘ main theme ہے‘ axis ہے‘ سنٹرل آئیڈیا ہے: {ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ ٪﴿۹﴾} اللہ کے فضل وکرم سے اس پر نہ صرف میرے متعدد دروس موجود ہیں‘ بلکہ ’’نبی اکرم ﷺکا مقصدِ بعثت‘‘ کے عنوان سے میری ۲۴ صفحات کی ایک تحریر صرف اس ایک آیۂ مبارکہ پر ہے‘ جس کے بارے میں الحمد للہ مجھے اطمینان ہے کہ اس تحریر میں اس آیۂ مبارکہ کا حق ادا ہو گیا ہے۔
قرآن حکیم کی شان یہ ہے کہ اس کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہوتے‘لہذا بعد میں آنے والوں کے لیے مزید راستے کھلے ہوں گے‘ لیکن اس وقت کی حد تک میں یہ عرض کرتا ہوں کہ اس تحریر کے بارے میں مجھے بعد میں کوئی ایسا احساس نہیں ہوا کہ کوئی بات غلط لکھی گئی ہے یا کہیں کوئی بات قابل اصلاح رہ گئی ہے۔
اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ کسی شخص کی نیت میں کھوٹ نہ ہو اور کوئی بغض و عناد‘ عداوت ‘ ہٹ دھرمی یا تعصب حائل نہ ہو جائے تو ان ۲۴ صفحات کے بعد اس آیت کے بارے میں کسی کے لیے بھی اشتباہ کی کوئی گنجائش نہیں رہے گی کہ یہ دین کے تقاضوں میں آخری اور بلند ترین منزل ہے۔
09
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہی وجہ ہے کہ اب یہاں اس کا حوالہ سورۃ الصف کی طرف سے دے دیا گیا کہ سورۃ الصف میں فرمایا گیا ہے کہ اس کے لیے جہاد کرو‘ یہ مقصدِ بعثتِ محمدیﷺ ہے۔لیکن ظاہر بات ہے اس کے لیے تن من دھن وہی لگائیں گے جو اہلِ ایمان ہیں‘جو اللہ اور اس کے رسولﷺپر ایمان کے مدعی ہیں۔
چنانچہ فرمایا:
{یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۱۰﴾تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾}
تو یوں سمجھئے کہ اُس منتخب نصاب (۱) کی ان پانچ آیات (سورۃ الحج کی آخری دو آیات اور سورۃ الصف کی آیات ۹تا۱۱) کے ذریعے اِس منتخب نصاب (۲) کے ساتھ اس کا تعلق جوڑا گیا ہے‘ جیسے ریل کی دو بوگیوں کو انٹرلاک کیا جاتا ہے۔
غلبہ واقامت دین کے لیے مختلف اصطلاحات
اب ہم اس سلسلے کا پہلا درس شروع کر رہے ہیں جس کا عنوان ہے ’’اقامتِ دین کی فرضیت اور اس کے لیے زوردار دعوت‘‘۔
یہ درس سورۃ الشوریٰ کی آیات ۱۳تا۱۵ اور آیات ۴۷‘۴۸ پر مشتمل ہے۔ ان آیات کا لفظ بلفظ مطالعہ شروع کرنے سے پہلے یہ نوٹ کر لیجیے کہ سورۃ الصف اور سورۃ الفتح میں جو اصطلاح ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ وارد ہوئی ہے اسی مفہوم کو ادا کرنے کے لیے قرآن میں تین مزید اصطلاحات ہیں۔
ایک سورۃ المدثر کی اصطلاح ’’تکبیر ربّ ‘‘ہے ۔ فرمایا:{یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ ۙ﴿۱﴾قُمۡ فَاَنۡذِرۡ ۪ۙ﴿۲﴾وَ رَبَّکَ فَکَبِّرۡ ۪﴿ۙ۳﴾}’’اے لحاف میں لپٹنے والے! کھڑے ہو جاؤ‘ لوگوں کو خبردار کرو اور اپنے ربّ کی بڑائی کرو!‘‘ یعنی زبان سے بھی اللہ اکبر کا اعلان کرو کہ ہمارا ربّ سب سے بڑا ہے‘ سب چھوٹے ہیں وہ بڑا ہے۔
اور پھر اس کی بڑائی کو عملاً دنیا کے اندر قائم کرو کہ وہ نظام برپا ہو جائے جس میں بالفعل اللہ کی بڑائی مسلم ہو‘ اللہ کی بڑائی نافذ ہو۔ ورنہ تو وہ کہنے کی ایک بات ہے‘اس کے سوا کچھ نہیں۔ تو تکبیر ربّ کا مفہوم بھی وہی ہو گیا جو دین کے غلبے کا مفہوم ہے۔
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔
تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)
’’ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔
10
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
؏ اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں!
اس ضمن میں حدیث نبویؐ کی ایک اور اصطلاح اعلائے کلمۃ اللہ ہے۔ ایک حدیث میں الفاظ آئے ہیں: ((لِتَکُوْنَ کَلِمَۃُ اللہِ ھِیَ الْعُلْیَا))(۱)
’’تاکہ اللہ کی بات سب سے اونچی ہو جائے‘‘۔ سب کی باتیں نیچی رہ جائیں اور اللہ کی بات سب سے اونچی ہو جائے۔
یہی مفہوم انجیل میں ’’ آسمانی بادشاہت‘‘ کی اصطلاح کی صورت میں بیان ہوا ہے۔ زمین پر آسمانی بادشاہت قائم کرنے کا مطلب وہی ہو گیا کہ اللہ کا دین قائم کرنا۔ زمین پر کسی بادشاہ ‘ کسی فرعون‘ کسی نمرود کی بادشاہی نہیں‘ کسی قوم کی بادشاہی نہیں‘ بلکہ آسمان کی بادشاہی قائم ہو۔
اور آسمان سے مراد اللہ تعالیٰ ہے۔ بائبل کی Lord's Prayer میں اسے اس طرح تعبیر کیا گیا ہے کہ:
,Thy Kingdom come
Thy will be done on earth
.as it is in Heavens
’’اے ربّ! تیری حکومت آئے‘ تیری سلطنت قائم ہو جائے‘ اور تیری مرضی زمین پر بھی اسی طرح پوری ہو جس طرح آسمانوں میں پوری ہوتی ہے‘‘۔
بیسویں صدی میں ہمارے کچھ اسلاف نے‘ جو اَب اللہ کے ہاں جا چکے‘ اس کام کے لیے اپنی کوششیں کیں اور اس ضمن میں مختلف اصطلاحات استعمال کیں۔ اس سے قطع نظر کہ کون راستے میں تھک ہار کر رہ گیا اور کون غلط موڑ مڑ گیا‘ ہم ان اصطلاحات کا جائزہ لیتے ہیں۔
ان میں اوّلین مولانا ابوالکلام آزاد ہیں‘ جنہوں نے ’’حکومتِ الٰہیہ کا قیام‘‘ کی اصطلاح اختیار کی۔
یہی اصطلاح پھر مولانا مودودی نے اپنائی اور اسی زمانے میں علامہ مشرقی اور خیری برادران نے بھی غلبہ دین کے لیے یہی ’’حکومتِ الٰہیہ کا قیام‘‘ کی اصطلاح اپنائی ‘یعنی اللہ کی حکومت قائم ہو جائے۔
پھر جماعت اسلامی میں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے اس کی جگہ ’’اقامت دین‘‘ کی اصطلاح متعارف کرائی۔
مولانا مودودی کے قلم سے جماعت اسلامی کے قیام سے قبل جو ابتدائی تحریریں نکلی ہیں ان میں حکومتِ الٰہیہ کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔ اصلاحی صاحب
11
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا فراہیؒ کے شاگرد تھے‘ ان کا خصوصی شغف قرآن مجید کے ساتھ تھا۔ چنانچہ شہادت علی الناس کی اصطلاح بھی اور اقامت دین کی اصطلاح بھی انہوں نے متعارف کرائی‘ یہاں تک کہ جماعت اسلامی کی تحریک میں یہ اصطلاح اتنی مقبول ہو ئی کہ پھر حکومت الٰہیہ کی اصطلاح کو ترک کر دیا گیا اور جماعت اسلامی کے زیر اثر ایک ایک بچے کی زبان پر جو لفظ سب سے زیادہ سننے میں آنے لگا وہ اقامتِ دین تھا۔
البتہ ’’اقامت دین‘‘ چونکہ ایک ثقیل لفظ ہے جس کے معنی ہیں دین کو کھڑا کرنا‘ دین کو قائم کرنا‘ لہذا جب جماعت اسلامی نے سیاست کے میدان میں قدم رکھ دیا تو انہوں نے کوشش کی کہ اب اصطلاحات بھی ذرا زیادہ عام فہم ہونی چاہئیں تو انہوں نے ’’قیامِ نظامِ اسلامی‘‘ کی اصطلاح استعمال کی۔
مفہوم کے اعتبار سے کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔
پھر ہمارے ہاں ۱۹۷۷ء میں بھٹو صاحب کے خلاف پاکستان قومی اتحاد (.P.N.A) کی جو تحریک چلی تھی‘ اس کے اندر جب دینی جذبہ پیدا ہوا اور اس کو مشرف باسلام کیا گیا تو اس میں ایک اصطلاح استعمال کی گئی ’’نظامِ مصطفیﷺ کا نفاذ‘‘۔
یہ اصطلاح مولانا شاہ احمد نورانی صاحب نے پیش کی تھی جسے اتحاد میں شامل جماعتوں نے قبول کر لیا اورپھر یہی اصطلاح اس تحریک کا عنوان بن گئی۔ مفہوم کے اعتبار سے یہ اصطلاح بھی متذکرہ بالا اصطلاحات کے ہم معنی ہے۔
__________________________
(۱)صحیح البخاری’ کتاب العلم‘ باب من سأل وھو قائم عالما جالسا۔
اِس دور میں ان اصطلاحات میں ایک اصطلاح ’’اسلامی انقلاب‘‘ کا اضافہ ہوا ہے۔
اس لیے کہ جب زمانہ بدلتا ہے تو لوگوں کے ذہن کا صغریٰ کبریٰ تک بدلتا ہے‘ لہذا ابلاغ کے لیے نئی اصطلاحات کی ضرورت پیش آتی ہے۔
چنانچہ اسی سلسلۂ اصطلاحات میں ’’اسلامی انقلاب‘‘ کی اصطلاح سب سے زیادہ مؤثر ‘ سریع الاثر اور سمجھنے میں آسان ہے۔
تو یہ ساری اصطلاحات ’’عباراتُنا شتّٰی وحسنک واحدٌ‘‘ کی مصداق ہیں۔
آپ اسے اظہار دین حق علی الدین کلہ کہیں‘ اقامتِ دین کہیں‘ وَ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ کہیں‘ تکبیر ربّ کہیں‘ اعلائے کلمۃ اللہ کہیں‘ آسمانی بادشاہت کہیں‘ اللہ کی حکومت یا حکومت الٰہیہ کہیں‘ نظامِ مصطفی ؐ کا نفاذ کہیں‘ نظامِ اسلامی کا نفاذ کہیں یا اسلامی انقلاب کا نام دیں‘ مفہوم ایک ہی ہے۔
اس موضوع پر ’’اقامت دین‘‘ کی اس اصطلاح کو متعارف کرانے کے لیے سورۃ الشوریٰ کی آیات ۱۳تا۱۵ اور آیات ۴۷‘۴۸ ہمارے اس منتخب نصاب (۲) میں درسِ اوّل کے طور پر شامل کی گئی ہیں۔
12
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورۃ الحدید اور سورۃ الشوریٰ میں باہمی مماثلت
ان آیاتِ مبارکہ کے مطالعہ سے قبل ایک بات آپ آغاز ہی میں نوٹ فرما لیں۔
میرے مختلف دروس کے ذریعے سے بہت سے حضرات کے علم میں یہ بات آ چکی ہو گی کہ میرے قلب پر سورۃ الحدید کا انتہائی گہرا تأثر ہے اور میں مسلمانوں سے خطاب کے ضمن میں اس سورۂ مبارکہ کو قرآن مجید کا ذروۂ سنام سمجھتا ہوں‘ اور یہ ا س سے بھی ظاہر ہے کہ میں نے مطالعۂ قرآن حکیم کے منتخب نصاب (۱) کا حرفِ آخر سورۃ الحدید کو قرار دیا ہے۔
اس کا نقطۂ آغاز سورۃالعصر ہے اور حرفِ آخر سورۃ الحدید۔ میرے نزدیک جو مقام مدنی سورتوں میں سورۃ الحدید کا ہے بالکل وہی مقام مکی سورتوں میں سورۃ الشوریٰ کا ہے۔ اور ان دونوں میں بڑی عجیب مماثلت ہے۔
سورۃ الشوریٰ حجم کے اعتبار سے سورۃ الحدید سے دوگنی ہے۔
اِس کی آیات ۵۳ ہیں‘ اُس کی ۲۹ ہیں۔ اور آپ دیکھیں گے کہ جس طرح سورۃ الحدید کی ابتدائی چھ آیات ذات و صفاتِ باری تعالیٰ کے ضمن میں نہایت اہم ہیں اور ان میں ذات و صفاتِ باری تعالیٰ اعلیٰ ترین علمی و عقلی سطح پر اور اعلیٰ ترین فلسفیانہ سطح پر زیر بحث آئی ہیں‘ اسی طرح (دوگنے حجم کے پہلو سے) سورۃ الشوریٰ کی ابتدائی بارہ آیات ذات و صفاتِ باری تعالیٰ سے بحث کرتی ہیں اور ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور صفاتِ جلال کا بیان ہے۔
وہاں چھ آیات کے بعد ساتویں آیت میں تقاضا سامنے آتا ہے : {اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ۔۔۔} یہاں بارہویں آیت کے بعد تیرہویں آیت اس تقاضے پر مشتمل ہے :{اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ }۔ کسی کے ماننے یا نہ ماننے سے اللہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا‘ وہ تو حقیقتِ کبریٰ ہے‘ وہ تو حقیقتِ مطلقہ ہے۔
لیکن اصل میں تمہاری نجات‘تمہاری فلاح‘ تمہاری کامیابی کا دار و مدار اس پر ہے کہ ا س کو مانو جیسا کہ ماننے کا حق ہے اور اس کے حکم کو مانو جیسا کہ اس کے حکم کو ماننے کا حق ہے۔
اس کو ماننے کا حق کیا ہے؟ اس کا تقاضا کیا ہے؟ ایمان! چنانچہ فرمایا: {اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ} ’’ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر‘‘۔
اور اس کے حکم کو ماننا کیا ہے؟ {وَ اَنۡفِقُوۡا مِمَّا جَعَلَکُمۡ مُّسۡتَخۡلَفِیۡنَ فِیۡہِ ؕ} ’’اور (اُس کی راہ میں) لگا دو‘ کھپا دو‘ صرف کر دو اُن سب چیزوں میں سے کہ جن میں اس نے تمہیں خلافت اور اختیار عطا فرمایا‘‘۔ سورۃ الحدید میں یہ انداز تھا۔
یہاں وہی چیز اقامتِ دین کی اصطلاح کے حوالے سے سامنے آئی : {اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ } ’’ کہ قائم کرو دین کو اور اس میں باہم تفرقہ مت ڈالو!‘‘
13
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر یہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ میزان کا لفظ کتاب کے ساتھ جڑ کر قرآن مجید میں صرف دو سورتوں میں آیا ہے‘ ایک سورۃ الشوریٰ اور دوسری سورۃ الحدید۔ یہاں فرمایا : {اَللّٰہُ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ وَ الۡمِیۡزَانَ ؕ}(آیت ۱۷)
اور اسی انداز سے بریکٹ ہو کر یہ دو الفاظ سورۃ الحدید میں آئے ہیں : {لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ} کسی ا ور جگہ آپ کو یہ دو الفاظ اس طرح جڑے ہوئے نہیں ملیں گے۔
اور اس ضمن میں وہ اصول بھی پھر دوبارہ ہمارے سامنے آیا کہ اہم مضامین قرآن میں دو مرتبہ لازماً آتے ہیں۔ اس کی بھی گویا کہ ایک اور مثال آپ کے سامنے آ گئی۔
آیت ۱۳ کا مطالعہ اور مختلف تراجم کا تقابل سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ کے بارے میں ایک بات یہ نوٹ کیجیے کہ یہ آیت بھی مشکلات القرآن میں سے ہے اور اس کی ترکیب نحوی بہت مشکل ہے۔ اس میں کہیں کوئی چیز محذوف ماننی پڑتی ہے اور اس کے دو ترجمے کیے گئے ہیں۔
میں صرف یہ عرض کروں گا کہ میں صرف و نحو میں اس مہارت کا مدعی نہیں ہوں کہ میں حَکَم بن کر بیٹھوں کہ کون سا ترجمہ غلط ہے اور کون سا ترجمہ صحیح ہے‘ لیکن میرا دعویٰ یہ ہے کہ ان دونوں ترجموں سے نتیجے کے اعتبار سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔
اگر الفاظ کے اس طرح کےاختلاف کے باوجود نتیجہ وہیں پہنچ رہا ہو تو پھر الفاظ کے چکر میں اپنے آپ کو زیادہ الجھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا‘ بلکہ مفہوم کو دیکھئے‘ اس طرح بھی وہی مفہوم ہے اور اُس طرح بھی وہی۔
یہاں بھی اسی طرح کا معاملہ ہے جیسے آیۂ اظہارِ دین کا ہے کہ {لِیُظۡہِرَہٗ } میں ایک ضمیر فاعلی ہے اور ایک ضمیر مفعولی ’’تاکہ وہ غالب کر دے اس کو‘‘۔ اب ایک ہے غالب کرنے والا‘ ایک وہ جس کو غالب کیا جائے۔
اب ان دو ضمیروں کے جتنے بھی ممکنہ مراجع ہو سکتے ہیں ان سب کا احاطہ کر کے میں نے اپنے متذکرہ بالا مضمون میں ثابت کر دیا ہے کہ کہیں مفہوم میں فرق واقع نہیں ہوتا‘ بات ایک ہی ہے۔
اُسی کی ایک مثال یہ ہے کہ یہاں بھی آیت کے ایک ٹکڑے کے دو ترجمے کیے گئے ہیں‘ جو نتیجے کے اعتبار سے ایک ہی مفہوم کے حامل ہیں۔
اب ہم اس آیہ ٔ مبارکہ (۱۳) کا مطالعہ شروع کرتے ہیں: {شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ} شارع کہتے ہیں راستے کو۔
چلنے کی جو ہمارے پاس ایک سیدھی راہ ہے‘ صراطِ مستقیم ہے ‘وہ شریعت ہے۔ طریق بھی راستے کو کہتے ہیں‘ طریقت بھی چلنا ہے۔
فرق صرف یہ ہے کہ شریعت ظاہری چلنا ہے اور طریقت باطنی چلنا ہے۔
14
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن ان دونوں میں کوئی فصل نہیں ہے۔
ظاہر و باطن ساتھ ساتھ ہی ہوتے ہیں۔ چنانچہ یہ دونوں چیزیں (شریعت اور طریقت) ایک ہی مفہوم کی حامل ہیں‘ البتہ ان کا اطلاق مختلف پہلوؤں کے اعتبار سے ہو جاتا ہے۔ شارع بمعنی راستہ اردو میں مستعمل ہے‘ آپ کہتے ہیں یہ شارع عام نہیں ہے ۔
تو {شَرَعَ لَکُمۡ} کا مفہوم ہو گا: ’’راہ ڈالی تمہارے لیے‘‘۔ اس کا مفہوم یہ بھی ہے :’’ معین کیا تمہارے لیے‘ عائد کر دیا تم پر‘‘۔
آپ ان میں سے جو چاہیں ترجمہ اختیار کر لیں‘ اس کے مفہوم میں کوئی فرق واقع نہیں ہوگا۔ {مِّنَ الدِّیۡنِ} کے بھی دو مفہوم لیے گئے ہیں۔ یعنی ’’از قسم دین‘‘ یا ’’دربارۂ دین‘‘۔ یہ میں نے فارسی کی دو اصطلاحات استعمال کی ہیں۔
’’دین میں وہ چیز مقرر کی گئی‘‘ یا ’’دین کے سلسلے میں وہ چیز مقرر کی گئی‘‘۔
نتیجہ مَیں آپ کو بعد میں بتا دوں گا کہ کوئی فرق واقع نہیں ہو گا۔
’’تمہارے لیے دین میں (یا دین کے سلسلے میں یا دین کے ضمن میں) وہ چیز مقرر کی گئی‘‘۔
{مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا } ’’جس کی وصیت کی تھی نوح کو‘‘۔
’’وَصّٰی ‘‘ کا فاعل کون ہے؟ اللہ! یعنی اللہ تعالیٰ نے وصیت کی نوح کو۔
وصیت کا لفظ ہمارے پہلے ہی درس (سورۃ العصر) کے اندر آتا ہے اور وہاں اس پر تفصیل سے بحث ہو جاتی ہے ۔
یہ لفظ مختلف ابواب سے آتا ہے۔
باب اِفعال سے اَوْصٰی ۔ یُوْصِیْ ۔ اِیْصَاءً ، وصیت کرنا اور باب تفعیل سے وَصّٰی ۔ یُوَصِّیْ ۔ تَوْصِیَۃً۔ اس میں اہتمام ہے‘ یعنی پیہم اور مسلسل وصیت کرتے رہنا‘ جیسے ’’اِعْلَام‘‘ کا مفہوم کسی کو کوئی چیز بتا دینا ہے‘جبکہ ’’تعلیم‘‘ کسی کو ذہن نشین کرانا ‘ اس کو hammer کرنا ہے۔ اسی طرح باب تفاعل سے آتا ہے تَواصی کہ آپس میں ایک دوسرے کو وصیت کرنا‘ یا اس میں مبالغے کا انداز پیدا ہوجائے گاکہ کثرت سے وصیت کرنا۔
یہاں وَصّٰی ہے‘ یعنی بہت تاکیدی حکم۔
15
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’راہ ڈالی تمہارے لیے دین کے ضمن میں یا دین کے بارے میں (بسلسلۂ دین یا دربارۂ دین) وہی جس کی وصیت کی تھی نوح کو‘‘ {وَّ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ } ’’اور جس کی وحی کی ہے ہم نے (اے محمدﷺ) آپ کی طرف‘‘۔
اِلَیۡکَ کی ضمیرِ مخاطب کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ اس سے حضورﷺ مراد ہیں۔
{وَ مَا وَصَّیۡنَا بِہٖۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰۤی } ’’اور جس کی ہم نے وصیت کی اور تاکید کی ابراہیم ؑ کوبھی اور موسٰی ؑکو بھی اور عیسٰی ؑ کو بھی‘‘۔
اب یہاں تک بات آپ نے سمجھ لی۔
تو یوں سمجھئے کہ اگر تو آپ {شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ } کا یہ ترجمہ کریں گے کہ ’’دین کے ضمن میں وہی چیز مقرر کی ہے‘‘ تو اس کا مطلب ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر حضرت محمدﷺ تک دین ایک ہی ہے۔
یعنی وہی دین تمہارے لیے مقررکیا جو نوح کے لیے‘ ابراہیم کے لیے‘ موسٰی کے لیے اور عیسٰی(علیہم الصلوٰۃ والسلام) کے لیے مقرر کیا اور اسی کی وحی کی ہے ہم نے اے محمدﷺ آپ کی طرف۔
تو یہ تو ایک مراد ہوئی۔
دوسری مراد یہ ہو گی کہ اس دین کے ضمن میں جو ذمہ داری نوح پر‘ ابراہیم پر‘ موسٰی پر اور عیسٰی پر(علیہم الصلوٰۃ والسلام) عائد کی تھی اور جس کی وحی اے محمدﷺہم آپ کو بھی کر چکے ہیں وہی ذمہ داری اے مسلمانو! ہم تم پر عائد کر رہے ہیں۔
تو نتیجے کے اعتبار سے کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔ دین وہی ہے اور دین کے ضمن میں ذمہ داری بھی وہی ہے۔ عام طور پر یہ دوسرا مفہوم زیادہ لیا گیا ہے ‘لیکن میں سمجھتا ہوں کہ نتیجے کے اعتبار سے ان دونوں میں سرِمو کوئی فرق نہیں۔
ہمارے اور سابقہ اُمتوں کے مابین دین کی قدرِ مشترک؟
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ دین کی وحدت کیا ہے؟ اس میں ہمارے مفسرین کو بحث کرنی پڑی ہے۔
اس لیے کہ شریعت میں تو فرق ہے‘ شریعت موسوی اور ہے ‘ شریعت محمدی اور ہے (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) ۔
اس اعتبار سے فرق ہے تو پھر دین ایک کیسے ہوا؟ ظاہر ہے اس میں وہی چیز مراد ہو سکتی ہے جو قدرِ مشترک ہو۔
15
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر یہ مانا جائے کہ اس سے مراد ہے ’’دین وہی مقرر کیا‘‘ تب یہ بحث اٹھتی ہے‘ اگر یہ ماناجائے کہ دین کے ضمن میں وہی ذمہ داری تم پر عائد کی جوسب پر تھی‘ تو یہ بحث نہیں اٹھتی۔
اگر آپ یہ سمجھیں کہ وہی دین مقرر کیا گیا‘ تو اب دین میں جو ظاہری فرق و تفاوت ہے وہ ایک سوالیہ نشان بن کر سامنے آ جائے گا۔ اس کو ہمارے مفسرین نے resolve کیا ہے کہ دین کی وہ چیزیں جو قدرِ مشترک ہیں‘ وہی یہاں مراد ہو سکتی ہیں۔ اس لیے کہ ہمارا اور ان کا نظامِ صلوٰۃ یکسر مختلف ہے‘ روزے کے احکام میں ان کے اور ہمارے درمیان بڑا فرق ہے۔
ان کے ہاں قربانی پر بہت زور تھا‘ ہمارے ہاں قربانی کا معاملہ کم رہ گیا‘ ان کے ہاں نماز پر اتنا زور نہیں تھا‘ مگر ہمارے ہاں نماز کو عماد الدین یعنی اصل رکنِ دین قرار دیا گیا ہے۔
ان کے ہاں یومِ سبت کا ایک حکم تھا جو اُن پر عائد کیا گیا تھا کہ اس روز کاروبارِ زندگی حرامِ مطلق تھا۔
ہمارے ہاں پورے ہفتے میں کوئی دن بھی ایسا نہیں ہے جس میں کاروبارِ دُنیوی حرامِ مطلق ہو۔
تاہم وہ حکم سمٹ کر آ گیا ہے ایک ساعت کے لیے‘ یعنی اذانِ جمعہ سے لے کر نماز ِ جمعہ ادا ہونے تک۔ چنانچہ ہمارے ہاں وہ حکم بہت مختصر رہ گیا ۔
تو یہ جو فر ق و تفاوت ہے یہ اظہر من الشمس ہے۔
تو پھر قدرِ مشترک کیا ہے؟ ویسے تو ایمان قدرِ مشترک ہے‘ یعنی توحید‘ معاد اور رسالت ۔
البتہ رسالت کے معاملے میں فرق ہو جائے گا‘ کہ ان کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانا ضروری تھا ‘حضرت محمدﷺ پر ایمان لانا لازم نہیں تھا‘ اس لیے کہ محمدٌ رسول اللہﷺ تو ابھی مبعوث نہیں ہوئے تھے۔
ہمارے لیے محمدٌ رسول اللہﷺپر بھی اور سابقہ رسولوں پر بھی ایمان لانا ضروری ہے۔ یہ بھی ایک ضمنی سا فرق ہوا۔
لیکن اکثر مفسرین کا موقف یہ ہے کہ اس سے مراد توحید ہے اور اس پر تقریباً اجماع ہے۔ اس لیے کہ واقعتا توحید ہی قدرِ مشترک ہے۔ توحید ہی اصل دین ہے‘ دین نام ہی توحید کا ہے۔
اقامت ِ دین کا مفہوم اور مغالطوں کا ازالہ
17
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب آگے چلیے ۔ فرمایا : {اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ } جنہوں نے یہ مانا کہ تمہارے لیے دین وہی مقرر کیا جس کی نصیحت کی تھی نوح کو‘ ابراہیم کو‘ موسیٰ کو‘ عیسیٰ کو(علیہم الصلوٰۃ والسلام) انہوں نے اس سے آگے محذوف مانا کہ اس کے ضمن میں تم پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی {اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ } کہ دین کوقائم رکھو یا قائم کرو‘ اور دین کے ضمن میں آپس میں متفرق مت ہو جاؤ۔
اور جن لوگوں نے یہ مانا ہے کہ آیت کے آغاز ہی سے مطلب یہ ہے کہ دین کے ضمن میں (دربارۂ دین) تمہارے لیے وہی بات طے کی گئی ہے جو سب کے لیے طے تھی‘ تو وہاں اب محذوف نہیں ماننا ہو گا {اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ } گویا اس کا بیان ہے کہ کیا چیز ہمیشہ سے عائد کی گئی تھی ‘ کیا چیز لازم کی گئی تھی‘ سب کو خطاب یہی تھا {اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ} کہ دین کو قائم کرویا دین کو قائم رکھو۔
یہ بحث مَیں بعد میں کروں گا۔
ترکیب نحوی کے اعتبار سے جو دو متبادل آراء ہمارے ہاں موجود ہیں وہ دونوں میں نے بیان کر دی ہیں‘ اور آپ نے دیکھ لیا ہے کہ نتیجے کے اعتبار سے دونوں میں سرِ مو کوئی فرق نہیں۔
اب آیئے اس پر کہ {اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ} کے معنی کیا ہیں! اس پر بدقسمتی سے اس زمانے میں ایک علامہ صاحب نے مورچہ لگایا ہے اور اس ضمن میں سب سے بڑی افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کے ایک کتابچے پرتائیدی مقدمہ اُن صاحب نے لکھا ہے کہ جو ’’اقامت دین‘‘ کی اصطلاح کو جماعت اسلامی کی تحریک میں متعارف کرانے والے تھے۔
ہوتا یہی ہے کہ جب کسی چیز سے کسی سبب سے کوئی بُعد ہو جائے‘ کوئی بغض پیدا ہو جائے تو اب معاملہ حبّ علی کا نہیں بلکہ بغض مُعاویہ کا ہوجاتا ہے۔ اب جو بھی اسکا مخالف ہو گاوہ اس کو اپنے سے قریب محسوس کرتے ہوئے اس کی تائید و توثیق کرنی شروع کر دے گا۔
اس کی بدترین مثال اِس دَور میں مولانا اصلاحی صاحب نے قائم کی ہے اور میرے نزدیک ؎
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق!
اس شعر کا اس معاملے میں صد فی صد اطلاق ہوتا ہے۔
اس لیے کہ خود انہوں نے پورے قرآن مجید میں ترجمہ وہی کیا ہے جس کو وہ علامہ صاحب غلط قرار دے رہے ہیں۔
اُن علامہ صاحب کی تو ہمیں کوئی پروا نہیں ہے‘ لیکن مولانا اصلاحی صاحب کا ایک علمی مقام ہے اور بڑا افسوس ہوتا ہے اس پر کہ عمر کے آخری درجے میں آدمی اپنے کیے دھرے پر پانی پھیرنے پر تل جائے۔(۱)
18
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اصلاحی صاحب یا تو صاف صاف تسلیم کر لیتے کہ اس معاملے میں میرا سابقہ موقف غلط تھا اور آج مجھے اِنشراح ِ صدر ہو گیا ہے‘ لیکن معاملہ یہ بھی نہیں۔
بہرحال چونکہ اسے بہت سے لوگوں تک پہنچایا گیا ہے اور اس ضمن میں کافی اشکالات ذہنوں میں پیدا کیے گئے ہیں‘ لہذا اِس وقت یہ ہماری ایک جماعتی‘ تنظیمی اور تحریکی ضرورت ہے کہ اس جنگل کو صاف کیا جائے ۔ {اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ} کا جو ترجمہ سب نے کیا وہی اصلاحی صاحب نے بھی کیا ’’ کہ اس دین کو قائم رکھو‘‘۔
یہ لفظ سورۃ المائدۃ میں بھی آیا ہے‘ وہاں بھی اصلاحی صاحب نے اس کا ترجمہ ’’قائم کرو‘‘ کیا ہے‘ ملاحظہ ہو آیت ۶۸ :
{قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لَسۡتُمۡ عَلٰی شَیۡءٍ حَتّٰی تُقِیۡمُوا التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکُمۡ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ}
’’کہہ دو :اے اہل کتاب! تمہاری کوئی بنیاد نہیں ہے جب تک تم تورات‘ انجیل اور اُس چیز کو قائم نہ کرو جو تمہاری طرف تمہارے ربّ کی جانب سے اتاری گئی ہے‘‘۔ (تدبر قرآن)
یعنی اصلاحی صاحب نے ایک جگہ ’’قائم رکھنا‘‘ اور ایک جگہ ’’قائم کرنا‘‘ ترجمہ کیا ہے اور ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ کوئی چیز اگر بالفعل قائم نہیں ہے تو قائم کی جائے گی‘ قائم ہے تو قائم رکھی جائے گی۔مثال کے طور پر خیمہ گرا ہوا ہے تو اسے کھڑا کیا جائے اور اگر کھڑا ہے تو کھڑا رکھا جائے ۔
اگر آندھی آ رہی ہے تو اس کی ہر طرح سے حفاظت کی جائے کہ خیمہ گر نہ جائے۔
اس کے کھونٹے خوب اچھی طرح مضبوط کر دیے جائیں‘ اس کی رسیاں خوب کس دی جائیں‘ کوئی رسی کمزور ہو تو اس کو بدل دیا جائے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جھکڑ بہت زوردار آ رہا ہو تو لوگ خیمے کی طنابیں اور بانس پکڑ کر کھڑے رہیں۔
یہ سارے کام اس لیے ہیں کہ خیمے کو کھڑا رکھنا ہے۔ اور اگر وہ گر جائے تو لامحالہ اب اس کو از سر نو کھڑا کرنا ہو گا۔
تو ’’اَقِیۡمُوا ‘‘ فعل متعدی ہے‘ اس کا ترجمہ یہی ہو گا کہ کسی دوسری شے کو کھڑا کرنا یا کھڑا رکھنا۔ لیکن آج ہمیں یہ نیا ترجمہ بتایا جا رہا ہے کہ اس کے معنی تو ہیں ’’کھڑا رہنا‘ قائم رہنا‘‘۔
گویا کہ یہ فعل لازم ہے۔ اس کے لیے بہت سے جاہلی اشعار سے استدلال کیا گیا ہے اور اس میں بھی بڑی چالاکی اور بددیانتی سے کام لیا گیا ہے۔
ایک شعر میں اقامت کے بعد ’’عَلٰی‘‘ کا صلہ آیا ہے‘ اس سے تو معنی یقینا بدل جائیں گے‘ کیونکہ preposition سے verb کے مفاہیم بدل جاتے ہیں۔ to give کے معنی اور ہیں ‘ to give up کے معنی کچھ اور ہیں ‘ to give in کے معنی کچھ اور ہیں۔ preposition بدلنے سے تو معنی میں زمین آسمان کا فرق واقع ہو جاتا ہے۔ اب سارے پڑھنے والے اتنی باریک بینی سے تو پڑھیں گے نہیں۔
تو یہ ایک دھوکے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ ایک جگہ لفظ استقامۃ آیا ہے‘ اس کے معنی ہم بھی مانتے ہیں کہ ’’کھڑے رہنا‘‘ کے ہیں۔
19
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)واضح رہے کہ یہ دروس اُس دَور کے ہیں جب مولانا امین احسن اصلاحی بقید حیات تھے۔
یعنی اقامت کس شے کی ہے؟ کوئی معنوی شے ہے‘ کوئی مادی شے ہے جسے کھڑا کرنا ہے‘ کوئی ستون گرا ہوا ہے اسے کھڑا کرنا ہے۔
یہ اقامت ہے۔
نماز معنوی شے ہے‘ اس کو کھڑا کرنا ہے‘ اس کو قائم کرنا ہے۔
ہمیں ہمیشہ سے یہی بتایا جاتا رہا ہے کہ اقامت صلوٰۃ سے مراد صرف نماز پڑھنا نہیں ہے بلکہ نماز کے پورے نظام کو اس کے شرائط و آداب کے ساتھ قائم کرنا ہے ۔
جمعہ اور جماعت کا نظام‘ اس کے لیے اذان کا معاملہ‘ یہ ساری چیزیں بھی اقامت صلوٰۃ میں شامل ہیں ۔تو اقامت کے معنی کھڑا کرنا یا کھڑا رکھنا کے ہیں‘ اگرچہ اس کا شاذ استعمال کھڑا ہونے کے لیے بھی ہو جاتا ہے ۔
اچھا اب اس میں ایک اور بات پر غور کیجیے! اگر ہم یہ ترجمہ کرتے ہیں کہ ’’قائم رہو دین پر‘‘ تو سوال پیدا ہو گا دین کے معنی کیا ہیں؟
کیااس کا مطلب جزوی دین پر قائم رہنا ہو گا یا کلی دین پر قائم رہنا؟ اگر کلی دین پر قائم رہنا ہے تو پھر بھی اقامت دین فرض ہو گی‘ کیونکہ صرف عبادات اور اعتقادات ہی پر تو قائم نہیں رہنا ہے۔کیا شریعت دین کا جزو ہے یا نہیں؟
کیا حلال اور حرام کے احکام دین کا جزو ہیں یا نہیں؟ کیا حدود و تعزیرات دین کا جزو ہیں یا نہیں؟
اگر یہ سب کچھ دین میں شامل ہے تو ’’قائم رہو دین پر‘‘ ٹھیک ہے ۔
اس پورے دین پر قائم رہنا ہے توا س کے ایک تقاضے اور منطقی نتیجہ کے طور پر دین کو ایک کامل نظامِ زندگی کی حیثیت سے قائم کرنا از خود شامل ہو جائے گا۔
تو وہ ترجمہ کریں تب بھی نتیجہ کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے‘ بشرطیکہ آپ کا دین کا تصور محدود نہ ہو۔
اگر آپ کا تصور ِدین صرف عقائد اور عبادات تک محدود ہے تو اور بات ہو جائے گی۔
20
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر تو آپ نے اپنے عقائد درست کر لیے‘ عبادات پر کاربند ہو گئے تو گویا کہ آپ دین پر قائم ہو گئے ۔ لیکن اگر آپ کا تصورِ دین یہ ہے کہ دین تو اس سے وسیع تر شے ہے‘ دین پوری زندگی کا احاطہ کرتا ہے تو پھر اگر کوئی شخص {اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ } کا یہ ترجمہ کرنے پر تل ہی جائے تب بھی قرآن مجید اپنے مفاہیم کی حفاظت کر سکتا ہے۔ ازروئے الفاظِ قرآنی:
{لَّا یَاۡتِیۡہِ الۡبَاطِلُ مِنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَ لَا مِنۡ خَلۡفِہٖ ؕ}(حٰمٓ السجدۃ:۴۲)
’’باطل اس پر حملہ آور ہو ہی نہیں سکتا‘ نہ سامنے سے نہ پیچھے سے‘‘۔
کچھ کم علم لوگ‘ یا جن کی نیتوں میں خلل ہو جائے‘ کچھ لوگوں کو کچھ عرصہ کے لیے مغالطے اور اشتباہ میں ڈال دیں تو یہ بات اور ہے‘ ورنہ قرآن تو اپنی اتنی حفاظت کرتا ہے کہ چلو کر لو دین پر قائم رہنے کا ترجمہ ‘تب بھی نتیجہ وہیں پہنچے گا۔
تمہارے لیے اس سے مفر نہیں‘ کہ اس کا بھی ایک لازمی تقاضا دین کو قائم کرنا ہے۔
توحید کی اقسام اور ان کا مفہوم
یہاں اب ایک اور لطیف نکتہ یہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر حضرت محمدٌ رسول اللہﷺتک دین کس طرح ایک رہا ہے۔
دراصل یہ توحید ہے جو قدرِ مشترک رہی ہے‘ یہی دین کا اصل الاصول ہے۔
میں اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل و احسان سمجھتا ہوں کہ توحید کو میں نے بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے توحید کے دو حصے ہیں :
(iتوحید نظری یا توحید فی العقیدہ یعنی اللہ کو ایک ماننا۔
(iiتوحید عملی ایک اللہ کا بندہ بن جانا۔
ازروئے الفاظِ قرآنی : {وَّ لَا یُشۡرِکۡ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖۤ اَحَدًا ﴿۱۱۰﴾٪} (الکہف) ’’اور وہ بندگی میں اپنے ربّ کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے‘‘۔
یعنی بندہ عبادات کے اندر یکسو ہو جائے‘ اس کی اطاعت منقسم نہ ہو کہ ایک معاملے میں تو اللہ کی اطاعت کر رہا ہو اور دوسرے معاملے میں اس کی اطاعت نہ کرے۔
دوسری تمام اطاعتیں اللہ کی اطاعت کے تابع ہو جائیں۔
والدین کی اطاعت‘ اساتذہ کی اطاعت‘ حکام کی اطاعت‘ امیر اور مرشد کی اطاعت‘ ان میں سے اگر کوئی بھی اطاعت اللہ کی اطاعت سے آزاد (independent) ہو تو وہ شرک ہے۔
21
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر اپنے نفس کی اطاعت اس درجے کی ہو تو اسے بھی قرآن نے شرک قرار دیا ہے : {اَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ ؕ} (الفرقان:۴۳) ’’(اے نبی!) کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہشاتِ نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے؟‘‘
توحید عملی کے بھی دو حصے ہیں : (۱) انفرادی (۲) اجتماعی۔
انفرادی توحید پر بحث سورۃ الزمر میں آتی ہے ‘ جبکہ اجتماعی توحید کا مطلب اللہ کے دین کو غالب کرنا ہے۔
اس اجتماعی توحید ہی کے لیے تکبیر ربّ‘ اقامت دین‘ اظہار دین الحق علی الدین کلہٖ اور یکون الدین کلہٗ للہ کی قرآنی اصطلاحات آئی ہیں۔
اس اجتماعی توحید ہی کے لیے اعلائے کلمۃ اللہ‘ حکومت الٰہیہ کا قیام اور زمین پر آسمانی بادشاہت کا قیام جیسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔
یعنی پورا نظامِ زندگی ایک اللہ کے اختیارِ کلی کے تحت آ جائے۔تو وہی بات ہو گئی کہ ’’عباراتُنا شَتّٰی وحسنک واحدٌ‘‘۔
جنت کے بہت سے دروازے ہیں‘ جس دروازے سے بھی داخلہ ہو جائے سعادت ہی سعادت ہے۔
یوں سمجھئے کہ یہ شہر معانی ہے‘ اس کے دروازے بہت سے ہیں‘ آپ کسی دروازے سے داخل ہو جائیں‘ کسی اصطلاح کے حوالے سے بات سمجھ لیں۔
ایک اصطلاح آپ کے ذہن کی ساخت کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتی تو دوسری اصطلاح حاضر ہے‘ شاید آپ کے ذہن کے سانچے میں یہ زیادہ فٹ بیٹھ جائے۔ مطلب تو پیڑ گننے سے نہیں ‘ آم کھانے سے ہے۔ اگر مفہوم میں کوئی فرق واقع نہیں ہو رہا تو خواہ مخواہ کا قیل و قال کس لیے!
’’تفرق فی الدین‘‘ کی ممانعت آگے فرمایا : {وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ } ’’اور اس (دین) میں متفرق نہ جاؤ‘‘۔ فَرَّقَ یُفَرِّقُ (باب تفعیل) کا مفہوم ہے :کسی چیز کو پھاڑ دینا‘ کاٹ دینا‘ ٹکڑے ٹکڑے کر دینا‘ جبکہ تَفَرَّقَ ۔ یَتَفَرَّقُ کا مطلب ہے : خود متفرق ہو جانا‘ خود ٹکڑے ٹکڑے ہو جانا‘ خود بٹ جانا‘ گروہوں میں منقسم ہو جانا۔
{وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ } میں فِیۡہِ (اس میں) کا معنی ہے ’’دین میں‘‘ ۔یعنی دین میں متفرق نہ ہوجاؤ۔ اس کی وضاحت کے لیے ’’القرآن یفسّر بعضُہ بعضًا‘‘ کا اصول استعمال کرتے ہوئے سورۃ الممتحنہ کی آیات ۸ اور ۹ کا مطالعہ کرتے ہیں‘ جہاں ’’فِی الدِّیۡنِ ‘‘ کا لفظ آیا ہے :
{لَا یَنۡہٰىکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یُقَاتِلُوۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ لَمۡ یُخۡرِجُوۡکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ اَنۡ تَبَرُّوۡہُمۡ وَ تُقۡسِطُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ ﴿۸﴾اِنَّمَا یَنۡہٰىکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیۡنَ قٰتَلُوۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ اَخۡرَجُوۡکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ وَ ظٰہَرُوۡا عَلٰۤی اِخۡرَاجِکُمۡ اَنۡ تَوَلَّوۡہُمۡ ۚ وَ مَنۡ یَّتَوَلَّہُمۡ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿۹﴾}
22
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اورتمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔
اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
وہ تمہیں جس بات سے روکتا ہے وہ تو یہ ہے کہ تم ان لوگوں سے دوستی کرو جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اور تمہارے اخراج میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ ان سے جو لوگ دوستی کریں وہی تو ظالم ہیں‘‘۔
سورۃ الممتحنہ کی متذکرہ بالا آیات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ’’دین کے معاملہ میں‘‘ یا ’’دین کے بارے میں‘‘ یا ’’دین کے ضمن میں‘‘ کا مفہوم کیا ہے۔ چنانچہ {وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ } کا مطلب کیا ہو گا؟ ’’فِیۡہِ‘‘ کی ضمیر مجرور ’’ہ‘‘ کا مرجع ’’دین‘‘ ہے۔ یعنی ’’فِیۡہِ‘‘ سے مراد ’’فِی الدِّیْنِ‘‘ ہے۔ چنانچہ {اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ } کا مفہوم ہو گا ’’دین کو قائم کرو اور اس کے بارے میں متفرق نہ ہو جاؤ!‘‘
تفرقہ اور اختلاف میں فرق
اب یہ بہت ہی اہم نکتہ ہے اور اس میں آپ کو بہت گہری ہدایت اور رہنمائی ملے گی کہ تفرقہ اور اختلاف دو بالکل الگ چیزیں ہیں اور ان میں باہم خلط مبحث نہیں ہونا چاہیے۔
اوّل تو ان دونوں الفاظ میں فرق ہے۔ اسی سورۂ مبارکہ کی آیت ۱۰ میں اختلاف کا ذکر ہے۔ فرمایا : {وَ مَا اخۡتَلَفۡتُمۡ فِیۡہِ مِنۡ شَیۡءٍ فَحُکۡمُہٗۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ} ’’تمہارے مابین جس معاملے میں بھی اختلاف ہو جائے تو اس کا فیصلہ ہے اللہ کے حوالے‘‘۔ اختلاف ایک لفظ ہے اور تفرقہ ایک دوسرا لفظ۔ اختلاف ہماری زبانوں میں ہے‘ ہمارے مزاجوں میں ہے‘ ہماری رنگتوں میں ہے‘ ہمارے افتادِ طبع میں ہے۔
؏
’’ہر گُلے را رنگ و بوئے دیگر است‘‘
۔
اور بقول شاعر ؏
’’ اے ذوق اس چمن کو ہے زیب اختلاف سے!‘‘
اختلاف تو اس فطرت کی تخلیق کے اندر جزولاینفک کی حیثیت سے مضمر ہے۔
اصل میں قرآن جہاں مذمت کرتا ہے وہ تفرقے کی کرتا ہے۔ ایک دوسرے سے کٹ جانا‘ جدا ہوجانا‘ من دیگرم تو دیگری۔ یہ نہیں ہونا چاہیے‘ بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ اختلاف کو برداشت کرو‘ اپنے سینے کشادہ رکھو‘ اپنے دلوں کو کشادہ رکھو۔
23
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں تک اختلاف جائز حدوں میں ہو اس کے لیے گنجائش خود پیدا کرو۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس کی گنجائش حضورﷺ نے خود پیدا فرمائی ہے۔
آپؐ نے نماز میں کبھی ہاتھ سینے پر باندھے اور کبھی ناف پر۔
کبھی ہاتھ کھول کر بھی لازماً نماز پڑھی ہو گی‘ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ امامِ دار الحجرت امام مالکؒ ہاتھ کھول کر نماز پڑھتے! یقینا یہ چیزیں حضورﷺ سے ثابت ہیں تاکہ واضح ہو جائے کہ کس کس چیز میں اختلاف کی گنجائش ہے۔
البتہ تفرقہ نہ ہو جائے کہ ’’من دیگرم تو دیگری! ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مختلف فقہی مسالک کے مابین فقہی اختلافات موجود ہیں۔
ہر فرقہ کے استنباط کے کچھ اصول ہیں‘ جن کے اعتبار سے ایک فرق کیا جا رہا ہے۔ اس میں کسی کا کوئی اختلاف قطعاً نہیں ہے کہ شارع حقیقی اللہ اور اس کے رسول ہیں۔
لیکن اصولِ استنباط میں اختلاف ہو گیا۔
اب ان اصولوں کا انطباق کیا گیا تو مختلف فقہی مسالک وجود میں آگئے۔ اس میں قطعاً کوئی حرج نہیں ہے کہ مسلک حنفی‘ مسلک شافعی‘ مسلک حنبلی اور مسلک مالکی کے اعتبار سے آپ علیحدہ علیحدہ رہیں۔
یہ کفر اور شرک نہیں ہے‘ جبکہ یہ بات متفق علیہ ہے کہ اصل میں شارع حقیقی اللہ ہے اور اللہ کے نمائندے کی حیثیت سے اللہ کا رسولﷺ ہے۔اگر کسی نے یہ سمجھا کہ شارع کی حیثیت ابوحنیفہ ‘ شافعی‘ مالک یا احمد بن حنبل (رحمہم اللہ) کو حاصل ہے تو وہ مشرک ہو جائے گا۔
لیکن جب استنباط‘ استدلال اور استنتاج کے مختلف اصولوں اور اسلوبوں کے فرق سے مسلک کا اختلاف ہو جائے تو اس میں قطعاً کوئی حرج نہیں ۔
یہ تفرقہ نہیں کہلائے گا۔ البتہ جہاں یہ اختلاف توحید تک پہنچ جائے اور اللہ کے سوا کسی اور کو مستقل شارع مان لیا جائے تو یہ تفرقہ ہو گا‘ اسی طرح اللہ کی بجائے جمہور حاکم ہوں تو یہ تفرقہ ہو گیا۔
اللہ کی بجائے کوئی فرد حاکم ہے تو یہ تفرقہ ہو گیا۔ جب تک وہ بات قائم ہے‘ وہ توحید اصلی کہ حاکم مطلق اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے تو اس سے نیچے نیچے اختلاف تفرقہ فی الدین نہیں شمار ہو گا۔ یعنی توحید جو قدرِ مشترک ہے‘ جو دین کی اساس ہے‘ جو دین کی جڑ ہے اس میں تفرقہ نہ ہو۔
24
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
{وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ} ’’فِیۡہِ ‘‘ میں ’’ہ‘‘ کی ضمیر مجروردین سے متعلق بھی ہے کہ اس دین کے بارے میں متفرق نہ ہو جاؤ اور اس کا تعلق اقامت دین سے بھی ہے کہ دین کے قائم کرنے میں متفرق نہ ہو جاؤ! میں ابتدا سے جو دو ترجمے لے کر چل رہا ہوں ان کے اعتبار سے یہ دوسرا مفہوم ہو گا۔ پہلا مفہوم یہ ہو گا کہ دین تمہارے لیے ایک ہی مقرر کیا گیا ‘ اس میں متفرق نہ ہوجاؤ۔
اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ دین کے ضمن میں تم سب پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی کہ اسے قائم کرو‘ اس فرض کی ادائیگی میں متفرق نہ ہو! حنفی‘ مالکی‘ حنبلی‘ شافعی اور اہل حدیث کا اختلاف اپنی جگہ رہے‘ لیکن اقامت دین میں آکر سب جڑ جائیں۔ توحید عملی کے قیام میں تفرقہ نہ ہو۔ یہاں اگر کٹ گئے تو یہ ہے اصل کاٹ‘ یہ ہے اصل تفرقہ۔
تو ان دونوں اعتبارات سے میں بات کو مکمل کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہوں۔
یہی لفظ (تفریق) دین کو پھاڑنے کے لیے بھی قرآن میں آیا ہے {اِنَّ الَّذِیۡنَ فَرَّقُوۡا دِیۡنَہُمۡ وَ کَانُوۡا شِیَعًا لَّسۡتَ مِنۡہُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ ؕ}(الانعام:۱۵۹)
’’جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے یقینا ان سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں‘‘۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ اگر وہاں سے تفرقہ ہو گیا کہ حاکمیت خداوندی کے تصور کو اگر کہیں کوئی زک پہنچ گئی یا وہ مجروح ہو گیا تو یہ تفرقہ اور تفریق دین ہو گا۔
حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف جو یہ الفاظ منسوب ہیں کہ ’’جو خدا کا ہے وہ خدا کو دو اور جو قیصر کا ہے وہ قیصر کو دو‘‘ یہ تفریقِ فی الدین ہے۔ میں حضرت مسیح علیہ السلام کے ان الفاظ کا وہ مطلب نہیں سمجھتا لیکن جو مطلب سمجھا جاتا ہے وہ تو دین میں تفریق ہو گئی۔
آپ نے دین کو پھاڑ دیا کہ دین کا ایک حصہ اللہ کے لیے اور ایک حصہ قیصر کے لیے۔
یہ بلاشبہ دین کی تفریق ہے۔ سیکولرزم بھی دین کی تفریق ہے کہ جو احوالِ شخصیہ ہیں ان میں ہم دین پر چلیں گے‘ مگر جو احوالِ اجتماعیہ ہیں ان میں لوگوں کی جو مرضی ہو گی اس کے مطابق قانون سازی ہو گی۔ وہاں گویا کہ حاکمیت انسانی تسلیم کی جاتی ہے۔
البتہ مسلکوں کا جو اختلاف ہے اُس کے اوپر اس کا اطلاق درست نہیں ہے۔
اس میں دین پھٹتا نہیں ہے‘ دین برقرار رہتا ہے‘ سب اللہ ہی کو حاکم مانتے ہیں‘ سب اسی کو شارع اصلی مانتے ہیں۔ میں اللہ کا شکر ادا کررہا ہوں کہ یہ چیزیں اس وقت بالکل دو اور دو چار کی طرح واضح ہو گئی ہیں۔
آیاتِ مبارکہ کا تاریخی پس منظر
25
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارشاد ہوا:
{کَبُرَ عَلَی الۡمُشۡرِکِیۡنَ مَا تَدۡعُوۡہُمۡ اِلَیۡہِ ؕ }
’’(اے نبیؐ!) مشرکین پر یہ بات بہت ہی بھاری ہے جس کی طرف آپ انہیں بلا رہے ہیں‘‘۔
آیت کے اس ٹکڑے پر گفتگو سے پہلے آیات زیر مطالعہ کے تاریخی پس منظر کو سامنے رکھنا بہت ضروری ہے۔ یہ مکی دور کی سورت ہے‘ لیکن مختلف احوال اور داخلی و خارجی شواہد سے اس سورۂ مبارکہ کا زمانۂ نزول سن ۸نبوی کے آس پاس بنتا ہے۔
نزولِ قرآن کے ابتدائی چند سال تک تو حضورﷺ کے مخاطب صرف مکہ کے لوگ یا مشرکینِ عرب ہی رہے تھے‘ لیکن سن ۵‘۶ نبوی کے آس پاس یہ دعوت اب پھیل چکی تھی‘ اس کا چرچا ہو چکا تھا اور یہود کے ساتھ بھی اب بالواسطہ (indirect) معاملہ چل رہا تھا۔ قرآن میں ابھی خطاب یہودیوں سے ہوا تھا نہ عیسائیوں سے‘ لیکن اُن کو مسلسل خبریں مل رہی تھیں۔
یہودی منتظر بیٹھے تھے کہ آخری نبی کا ظہور ہونے والا ہے‘ لیکن وہ اس مغالطے میں تھے کہ وہ ہم میں سے ہو گا‘ حضرت یعقوب علیہ السلام سے لے کر آج تک نبوت تو ہمارے خاندان بنی اسرائیل میں چلی آ رہی ہے‘ تو یہ کیسے باہر چلی جائے گی! لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ یہ تو باہر جا رہی ہے تو ان میں اب غصہ بھی پیدا ہوا اور انہوں نے وہاں سے بیٹھ کر تار ہلانے شروع کیے۔
چنانچہ کبھی سوال بھجوا رہے ہیں کہ ذرا ان سے پوچھو رُوح کسے کہتے ہیں؟ اگر یہ نبی ہیں تو رُوح کی حقیقت بتائیں! ذرا ان سے پوچھو کہ اصحابِ کہف کون تھے؟ ان سے پوچھو ذوالقرنین کون تھا؟ اگریہ نبی ہیں تو بتائیں! تو اب یہ وہاں سے بیٹھے مشرکین مکہ کے تار ہلا رہے تھے۔ اسی طرح ایک بالواسطہ معاملہ ان کے ساتھ شروع ہو چکا تھا‘ اگرچہ ابھی ان سے براہِ راست خطاب نہیں تھا۔
نبی اکرمﷺ کو مکہ مکرمہ میں دعوت دیتے ہوئے سات آٹھ سال گزر چکے تھے ‘ لیکن ابھی اس دعوت کا بظاہر کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آ رہا تھا۔
ان حالات میں بربنائے طبع بشری حضورﷺ کی طبیعت میں ایک فکر اور تشویش ابھر رہی تھی کہ کہیں اس میں میری کوئی کوتاہی تو نہیں ہے‘ میری طرف سے کوئی کمی تو نہیں رہ گئی ہے‘ میرے بیان میں کوئی ابہام تو نہیں ہے‘ میری ذات کے اندر تو کوئی ایسی خرابی نہیں ہے جو اِس حقیقت کے انکشاف میں آڑے آ گئی ہو؟ یہ احساسات ہر شریف اور بامروّت انسان کے اندر پیدا ہوتے ہیں۔
چنانچہ قرآن مجید میں مختلف پیرایوں میں حضورﷺ کو تسلی دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ آپؐ نہ گھبرائیں‘ انہیں راہ راست پر لانے کی ذمہ داری آپ کی نہیں ہے‘ آپؐ پر صرف ابلاغ اور تبلیغ کی ذمہ داری ہے‘ ہم نے آپؐ کو داروغہ بنا کر نہیں بھیجا‘ انہیں زبردستی اسلام پر لے آنا آپؐ کی ذمہ داری نہیں ہے ۔
26
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے اور سیاقِ کلام پر غور کرتے ہوئے دیکھئے کہ یہاں اب کیا بات کہی جا رہی ہے۔ یہاں بھی وہی تسلی کا انداز ہے کہ اے محمدﷺ! آپ پریشان نہ ہوں‘ آپ تشویش میں مبتلا نہ ہوں‘ آپ رنج و صدمے سے دوچار نہ ہوں‘ یہ معاملہ درحقیقت اتنا آسان نہیں ہے جتنا کہ آپؐ اپنی شرافت کی بنا ء پر سمجھ رہے ہیں کہ سچی بات ہے ‘ اسے قبول کیا جانا چاہیے۔
ہر سچا آدمی اسی انداز سے سوچے گا ‘ اسے کیا پتا کہ لوگوں کے دلوں میں کیسے کیسے فساد پڑے ہوئے ہیں‘ کسی کو اپنی چودھراہٹ کی فکر ہے‘ کسی کو اپنی سیادت کی فکر ہے‘ کسی کو اپنی گدی کی فکر ہے‘ کوئی مذہبی اور روحانی اعتبار سے لوگوں کا مقتدا اور پیشوا بنا بیٹھا ہے‘ اسے اس سے تشویش لاحق ہو گئی ہے۔
اب آپؐ کو کیا پتا کہ کیا کیا چیزیں لوگوں کے پاؤ ں میں بیڑیاں بن کر پڑی ہوئی ہیں۔ ہر شریف آدمی اپنے بارے میں جو کچھ سوچتا ہے اسی پر دوسروں کو قیاس کرتا ہے‘ لیکن دراصل بات کچھ اور ہے!
یہ بھی جان لیجیے کہ اُس وقت دو گروہ تھے جو اب سامنے آ گئے تھے‘ ایک تو مشرکین عرب‘ جن کو دعوت دیتے ہوئے سات آٹھ برس ہو چکے تھے‘ جبکہ دوسرا گروہ اہلِِ کتاب کا تھا جن سے بالواسطہ معاملہ شروع ہو چکا تھا۔
حضورﷺکے دل میں یہ بات آئی ہو گی کہ اہلِ کتاب کو تو فوراً لپک کر میری تصدیق کرنی چاہیے۔
مشرکین مکہ کے ہاں تو کوئی شریعت موجود نہیں تھی‘ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بعد اُن کے ہاں کوئی نبی نہیں آیا تھا‘دو ہزار برس بیت چکے تھے اور اس عرصے میں ان کے اندر بہت سی گمراہیاں پیدا ہو چکی تھیں‘ حالانکہ نبی اکرمﷺ کی دعوت ان کے لیے بھی کوئی نئی بات نہیں تھی۔
الفاظِ قرآنی {مِلَّۃَ اَبِیۡکُمۡ اِبۡرٰہِیۡمَ } کے مصداق آپﷺان کے سامنے ان کے باپ ابراہیم علیہ السلام ہی کا طریقہ پیش کر رہے تھے‘ لیکن وقت کے دریا میں اتنا پانی بہہ چکا تھا کہ ان کو اگر اس میں استبعاد محسوس ہو رہا تھا تو یہ بات ناقابل فہم نہ تھی‘ لیکن اہلِ کتاب کے بارے میں آنحضورﷺ یہ ضرور سوچتے ہوں گے کہ انہیں کیا ہو گیا ہے! یہ تو انبیاء کے ماننے والے ہیں‘ موسٰی ؑ اور عیسٰی ؑ کے ماننے والے ہیں‘ قیامت کے ماننے والے ہیں‘ توحید کے دعوے دار ہیں (چاہے وہ شرک میں مبتلا تھے لیکن دعوے دار تو توحید ہی کے تھے) ان کے لیے تو آسمانی ہدایت کوئی انوکھی اور نئی بات نہیں‘ ان کے پاس آسمانی کتابیں موجود ہیں‘ ویسی ہی ایک کتاب مجھ پر ناز ل ہو رہی ہے‘ میں نے ان کی کتابوں کی نفی نہیں کی ہے‘ قرآن ان کی تصدیق کرتے ہوئے آیا ہے‘ پھر یہ قرآن پر ایمان کیوں نہیں لاتے؟
ان دونوں چیزوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب آیت کے اگلے الفاظ کا مطالعہ کیجیے۔
دیکھئے کس قدر تسلی آمیز انداز ہے : {کَبُرَ عَلَی الۡمُشۡرِکِیۡنَ مَا تَدۡعُوۡہُمۡ اِلَیۡہِ ؕ } ’’(اے نبیؐ!) مشرکین پر تو بہت ہی بھاری ہے وہ چیز جس کی طرف آپ انہیں بلا رہے ہیں‘‘۔ خود حضورﷺ کا بھی احساس یہی تھا کہ ان مشرکین کا معاملہ تو ’’ضَلُّوۡا ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا ‘‘ والا ہو چکا‘ یہ تو گمراہی میں بہت دور چلے گئے‘ تین سو ساٹھ خداؤں کو ماننے والے‘ ان کے لیے تو واقعتا یہ بات قبول کرنا بہت مشکل ہے۔
27
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپﷺکو اس کا تجربہ بھی ہو چکا تھا۔ ان میں کتنے ہوں گے جو اس بھاری پتھر کو چوم کر پیچھے ہٹ جاتے ہوں گے‘ جی چاہتا ہو گا کہ ایمان لے آئیں‘ لیکن پاؤں کی بیڑیاں آگے نہیں بڑھنےدیتی ہوں گی۔ ولید بن مغیرہ کا معاملہ یہ تھا کہ وہ بالکل قریب آ جاتا تھا جیسے کہ اب مانا کہ مانا‘ پھر واپس ہوجاتا تھا‘ پاؤں میں جو بیڑیاں پڑی ہوئی تھیں وہ پھر کھینچ لیتی تھیں۔ تو ان میں سے کتنے ہی ایسے تھے کہ جو آتے تھے ‘ پھر رہ جاتے تھے‘ اس لیے کہ یہ ان کے لیے بہت بھاری پتھر تھا۔
ان کی سیادتیں‘ قیادتیں‘ چودھراہٹیں اور ان کو جو مراعات حاصل تھیں وہ سب کی سب ان کے پاؤں میں بیڑیاں بن کر پڑی ہوئی تھیں۔ پھر ان کی آباء پرستی اور روایت پرستی آڑے آتی تھیں کہ اپنے آباء و اجداد کا دین چھوڑ کر کیسے چلے جائیں! تو فرمایا کہ اے نبیؐ! یہ آسان کام نہیں ہے۔ یہ ان پر بہت بھاری ہے۔
راہِ ہدایت پر آنے کے دو طریقے
اس سلسلے میں آگے جو دوباتیں آ رہی ہیں یہ حکمتِ قرآنی کا بہت اہم موضوع ہے۔ فرمایا:
{اَللّٰہُ یَجۡتَبِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یُّنِیۡبُ ﴿۱۳﴾}
’’اللہ تعالیٰ کھینچ لیتا ہے اپنی طرف جسے چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے اپنی طرف اس کو جو اُدھر رجوع کرتا ہے‘‘۔
یہ حق کی طرف آنے کے دو مختلف راستے ہیں۔ صوفیاء نے اس کے لیے مستقل اصطلاحات وضع کی ہیں: ’’سالک مجذوب‘‘ اور ’’مجذوب سالک‘‘۔
ایک وہ ہوتا ہے جسے اللہ پہلے کھینچ لیتا ہے اور پھر اس کی تربیت فرماتا ہے‘ اس کو راستے طے کراتا ہے ۔ اور ایک وہ ہوتا ہے جو بے چارہ خود چل کر آتا ہے‘ قدم بقدم خود سفر طے کر کے آرہا ہوتا ہے‘ وہ از خود دستک دے رہا ہوتا ہے کہ دروازہ کھول دیا جاتا ہے کہ خوش آمدید! تم چل کر آئے ہو‘ تم نے محنت کی ہے‘ تم نے اس کے لیے قربانیاں دی ہیں! ان اصطلاحات کا انطباق کریں تو ’’سالک مجذوب‘‘ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ہیں اور ’’مجذوب سالک‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں‘ جو نکلے تو تھے قتل کرنے کے ارادے سے‘ اللہ نے کیا شکل پیدا کی کہ راستے ہی میں کھینچ لیا۔
یہ ہیں دو راستے! تو اے محمدؐ! آپ مطمئن رہیے! ان میں سے جسے ہم چاہیں گے کسی وقت کھینچ لیں گے۔ اور ان میں سے کوئی رفتہ رفتہ قدم بڑھاتے ہوئے آئے گا ۔ان کے اندر جو بھی کسی درجے میں بھی حق کا جویا اور متلاشی ہے اور ابھی وہ اپنی ہمت کو مجتمع نہیں کر پا رہا‘ ہم اس کو ہمت عطا فرما دیں گے۔
جس پر حق تومنکشف ہو گیا‘ آگے بڑھنا چاہتا ہے‘ لیکن {مَّوَدَّۃَ بَیۡنِکُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ } کے مصداق اب برادریاں ہیں‘ رشتہ داریاں ہیں‘ تعلقات ہیں‘ دوستیاں ہیں‘ ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہے‘ پچیس پچیس برس‘ تیس تیس برس بیت گئے ہیں‘ اب ایک دم ان میں سے آدمی کیسے نکل آئے ‘جیسے کہ دودھ میں سے مکھی نکل آتی ہے‘ یہ بڑی مشکل بات ہے‘ بہت کٹھن مرحلہ ہے ان تمام بیڑیوں کو کاٹ کر نکل آنا۔ تو اس کے لیے اطمینان کے ساتھ منتظر رہیے۔ جس کو ہم چاہیں گے‘ جب چاہیں گے ہاتھ پکڑ کر کھینچ لیں گے اور پھر اُسے راستہ طے کرا دیں گے۔ اور جو کوئی ان میں سے ایسا ہے کہ جس پر حق منکشف ہو رہا ہے‘ طبیعت مائل ہو رہی ہے‘ اس کی بیڑیوں کو رفتہ رفتہ کاٹ دیں گے۔
28
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہل کتاب کی مخالفانہ روش کا اصل سبب
دوسرا گروہ اہل کتاب کا تھا‘ جس میں نصاریٰ بھی تھے اور یہودی بھی۔ یہ ایک ہی کتاب کے ماننے والے تھے ‘ کم از کم Old Testament تو دونوں میں مشترک تھی‘اختلاف تو صرف New Testament پر ہو سکتا ہے جو چھوٹی سی ہے۔ پھر یہ دونوں موسیٰ علیہ السلام اور شریعت موسوی کے ماننے والے تھے۔
عیسائیوں میں اگرچہ حضرت مسیحؑ کے بعد سینٹ پال نے شریعت ساقط کر دی تھی ‘لیکن اُس وقت جب قرآن نازل ہوا ابھی وہ لوگ بھی موجود تھے جنہوں نے اس کو ساقط نہیں ماناتھا۔
اس کے بعد تو پھر سارے فرقے ختم ہوتے چلے گئے اور عیسائیت میں صرف پال کے ماننے والے ہی رہ گئے۔ اب جتنے عیسائی ہیں وہ اصل میں ’’پالسٹ‘‘ ہیں‘کرسچین نہیں ہیں۔
وہ اگر اپنے لیے کرسچین کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو غلط کرتے ہیں۔ اب اہلِ کتاب کے ان دونوں گروہوں کے بارے میں اس حوالے سے تسلی دی جا رہی ہے کہ یہ آپؐ کی بات کیا مانیں گے ‘ ان کا تو آپس میں سر پھٹول ہے‘ اپنی سیادت و قیادت کا جھگڑا ان کو مل کر بیٹھنے نہیں دے رہا۔
یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ میں یہ ساری تفسیر تأویل خاص کے اعتبار سے کر رہا ہوں‘ یعنی جس ماحول میں یہ آیات نازل ہوئیں اس کے اعتبار سے ان کا مفہوم کیا ہے۔ اگرچہ ہم ان سے استنباط کریں گے ‘ انہیں‘ generalize بھی کریں گے کہ ؎
حقیقت ابدی ہے مقامِ شبیری
بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی
بات وہی رہتی ہے‘ لیبلز بدلتے ہیں‘ آج آپ کو اپنے ہاں یہ سب مثالیں مل جائیں گی۔ آپ کے جو عوام کالانعام ہیں‘ ان کی اکثریت بدترین شرک کے اندر مبتلا ہے۔
ان کے لیے تو بڑا بھاری ہے اپنے عرس چھوڑ دینا‘ اور قبروں پر جا کر جو کچھ کر رہے ہیں اس کو چھوڑ دینا ۔
یہ کوئی آسان کام ہے؟ یہ ان کا مکمل دین بنا ہوا ہے۔ پھر جو اس طرح کی خرافات میں مبتلا نہیں ہیں وہ آپس کے سرپھٹول کا شکار ہیں ۔
تو آپ الفاظِ قرآنی کو ہر دَور کے انسانوں پر منطبق کر سکتے ہیں‘ اس لیے کہ وہی ساری کیفیات رہیں گی‘ اس دنیا کی سٹیج پر ہر وقت وہی ایکٹرز رہیں گے‘ منافق بھی رہیں گے اور مؤمن صادق بھی رہیں گے۔
29
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہرچہ بادا باد والے بھی ہوں گے اور وہ بھی رہیں گے کہ جن کی گاڑی قدم قدم پر‘ knocking کرتی ہے‘جو مذبذب رہتے ہیں کہ چلیں کہ نہ چلیں؟ روشنی ہوئی تو کچھ چل لیے‘ تاریکی ہو گئی تو کھڑے کے کھڑے رہ گئے‘ اس لیے کہ اندر کا نور تو ہے ہی نہیں۔ اب یہ جو کیفیات اس وقت تھیں اب بھی ہیں۔ اسی طریقے سے جو مشرکین کی دُوری تھی وہ اب بھی ہے۔
باقی رہ گئے یہ اہل کتاب تو ان کے بارے میں جان لیجیے کہ {وَ مَا تَفَرَّقُوۡۤا اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ؕ} ’’انہوں نے جو تفرقہ کیا وہ اس کے بعد کیا کہ ان کے پاس علم آ چکا تھا‘ اور اس بناء پر کیا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے‘‘۔ سورۃ البقرۃ میں فرمایا گیا ہے: {وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ لَیۡسَتِ النَّصٰرٰی عَلٰی شَیۡءٍ ۪ وَّ قَالَتِ النَّصٰرٰی لَیۡسَتِ الۡیَہُوۡدُ عَلٰی شَیۡءٍ ۙ وَّ ہُمۡ یَتۡلُوۡنَ الۡکِتٰبَ ؕ}(آیت ۱۱۳)
’’یہودی کہتے ہیں کہ نصاریٰ کسی بنیاد پر نہیں ہیں (ان کا کوئی مقام نہیں ہے ‘کوئی حیثیت نہیں ہے) اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہودیوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے‘ جبکہ دونوں ایک ہی کتاب کے پڑھنے والے ہیں!‘‘ ایک ہی کتاب پڑھتے ہیں اور پھر حال یہ ہے! البتہ مسلمانوں کے مقابلے میں آ کر وہ جمع ہو جاتے تھے‘ آپس میں جو سرپھٹول تھا وہ اپنی جگہ برقرار تھا۔ {تَحۡسَبُہُمۡ جَمِیۡعًا وَّ قُلُوۡبُہُمۡ شَتّٰی ؕ }(الحشر:۱۴)
’’تم سمجھتے ہو (اے مسلمانو!) کہ یہ جمع ہیں‘ حالانکہ ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں‘‘۔ یہ جمع کہاں ہیں! یہ تو صرف ’’بغض معاویہ‘‘ میں جمع ہوئے ہیں ‘ ان کے مابین کوئی ’’حبّ علی ‘‘نہیں ہے جو اِن کو جمع کر رہی ہے۔ {وَ مَا تَفَرَّقُوۡۤا اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ } ان میں جو تفرقہ رونما ہوا وہ ان کے پاس علم کے آنے کے بعد ہوا۔
اب دیکھئے اس میں ایک لطیف بات سامنے آ گئی۔
ان مشرکین کے پاس تو علم آیا نہیں‘اس لیے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بعد سے محمدٌ رسول اللہﷺ تک کوئی نبوت نہیں‘ کوئی کتاب نہیں‘ کوئی شریعت نہیں۔ اور یہ جو اہل کتاب ہیں یہ تو علم کے ٹھیکے دار ہیں‘ ان میں ایک سے ایک بڑا علامہ بیٹھا ہوا ہے‘ ان کے ہاں ایک سے ایک بڑا کتاب کا جاننے والا‘ ایک سے ایک بڑا قاری اور ایک سے ایک بڑا مفتی موجود ہے۔
پھر یہ تفرقہ کیوں ہے؟ تو معلوم ہوا کہ تفرقے کا سبب کچھ اور ہوتا ہے‘ لاعلمی نہیں ہوتی۔ یہ من جو پاپی ہوتا ہے‘ یہ کسی اور سبب سے ہوتا ہے۔ حق کو جاننے کے باوجود انسان اسے ٹھکراتا ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟ وہ ہے {بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ؕ } یعنی آپس کی ضدم ضدا۔ یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آیا ہے کہ ان کے تفرقہ کی وجہ آپس کی ضدم ضدا ہے کہ یہ کیوں آگے بڑھ جائے‘ میں کیوں پیچھے رہ جاؤں؟ اس میں کیا سرخاب کا پر ہے؟
ہماری سیادت و قیادت مسلّمہ ہے‘ لوگ آ کر ہمارے ہاتھ چومتے ہیں اور ہماری جوتیاں سیدھی کرتے ہیں۔ یہ کہاں سے آ گیا دین کا نام لینے والا اور دین کا علم بردار؟ یہ ہے اصل مسئلہ!
30
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
{وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّکَ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی لَّقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ ؕ } ’’اور اگر تیرے ربّ کی طرف سے ایک وقت معین کا فیصلہ نہ ہو چکا ہوتا تو ان کا قضیہ چکا دیا جاتا‘‘۔ یعنی ان یہود اور نصاریٰ کے مابین فیصلہ کر دیا جاتا‘ لیکن فیصلہ کرنے کا ابھی یہ
وقت نہیں ہے‘ ہم نے تو مہلتِ عمل دی ہوئی ہے‘ امتحان کا دور ہے‘ اس دنیا میں ہر شخص جو کماتا ہے کما لے‘ جسے خیر بنانا ہے خیر بنائے‘ جسے شر کی گٹھڑیاں باندھ کر اپنے سر پر اٹھانی ہیں وہ انہیں تیار کر لے۔ {لِّیَہۡلِکَ مَنۡ ہَلَکَ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍ وَّ یَحۡیٰی مَنۡ حَیَّ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍ ؕ}(الانفال:۴۲)
’’تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیلِ روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیلِ روشن کے ساتھ زندہ رہے‘‘۔ لہذا یہ ہے وہ بات جس کی وجہ سے ہم نے انہیں چھوٹ دی ہوئی ہے‘ ورنہ ان کا قصہ ہم ابھی چکا دیتے۔
وارثین کتاب کا نقشہ
{وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اُوۡرِثُوا الۡکِتٰبَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ مُرِیۡبٍ ﴿۱۴﴾} ’’اور وہ لوگ کہ جو اِن کے بعد کتاب کے وارث بنائے گئے وہ اس کتاب کے بارے میں بڑے اضطراب انگیز شک میں مبتلا ہیں‘‘۔ وہ ایسے شک میں پڑے ہیں کہ جو ان کے دلوں میں خلجان اور الجھن پیدا کر رہا ہے۔
یہ ایک بہت اہم مضمون ہے۔ دیکھئے‘ آپ کے علم میں ہو گا کہ شاہ اسماعیل شہید اور علامہ فضل حق خیر آبادی کے مابین ایک خالص علمی بحث کا آغاز ہو گیا تھا اور اس میں ابتذال کسی طرف سے نہیں تھا‘ دونوں علم‘ منطق اور فلسفے کی تلواروں سے لڑ رہے تھے۔
لیکن اس کا نتیجہ دو نسلوں کے بعد کیا نکلا؟ یہ کہ آج آپ کے جدید تعلیم یافتہ طبقے کی ایک کثیر تعداد دین ہی سے برگشتہ ہو گئی ہے کہ یہ ان مولویوں کا حال ہے ‘ یہ ان چیزوں پر لڑتے ہیں! ان کا قرآن ایک‘ ان کا رسول ایک‘ ان کا کعبہ ایک‘ اور پھر ان کے مابین سر پھٹول ہے‘ کفر کے فتوے ہیں!
پھر یہ ہے ان کا حال جو ہو رہا ہے۔ اس سے ایک نتیجہ نئی نسل کے اندر دین ہی سے بے اعتباری کی صورت میں نکلتا ہے ۔ یہ ہے وہ بات جو یہاں کہی گئی ہے ۔علماء جب اس کیفیت میں مبتلا نظر آتے ہیں اور جب وہ جغادری لوگ جو دین کے ٹھیکے دار اور دین کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں‘ ان کا حال یہ نظر آتا ہے تو اگلی نسل کے لوگ جو وارث ہوتے ہیں وہ کتاب ہی کے بارے میں شک و شبہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
وہ سوچتے ہیں کہ قرآن تو کہتا ہے کہ یہ جمع کرنے والی شے ہے‘ مگر ہمارے یہ علماء قرآن پڑھتےہیں اور پھٹے ہوئے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ نماز برائیوں سے روکتی ہے‘ یہ نمازیں پڑھنے پڑھانے کے بہت پابند ہیں مگر کردار ان کا یہ ہے! یہی چیز ہے جو لوگوں کو دین سے برگشتہ کر دیتی ہے اور لوگ خود کتاب اللہ ہی کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
مطلب یہ ہوا کہ اے نبیؐ! جو آپؐ کے سامنے اہل کتاب ہیں‘ یہ بس نام کے اہل کتاب ہیں‘ ان سے آپؐ کوئی اچھی توقع نہ رکھئے۔ جیسا کہ سورۃ البقرۃ میں فرمایا : {وَ لَنۡ تَرۡضٰی عَنۡکَ الۡیَہُوۡدُ وَ لَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمۡ ؕ}(آیت ۱۲۰)
31
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ آپ سے کبھی راضی نہیں ہوں گے نہ یہود نہ نصاریٰ جب تک کہ آپؐ ان کے طریقے کی پیروی نہ کریں‘‘۔ سارا جھگڑا تو یہ ہے ۔یہ کبھی نہیں مانیں گے‘ کبھی آپ سے راضی نہیں ہوں گے۔ یعنی آپؐ کو ان کی مخالفت کے علی الرغم آگے بڑھنا ہے۔ اس کے لیے آپ ذہناً تیار رہیے۔ اگر آپؐ ان سے کوئی امید وابستہ کر لیں گے تو ناامیدی ہو گی ‘ صدمہ ہو گا۔ اور اگر آپؐ امید پہلے ہی منقطع کر دیں تو صدمہ نہیں ہو گا۔
جب توقع ہی اٹھ گئی غالبؔ
کیا کسی کا گلہ کرے کوئی!
جب توقع ہی نہیں تو پھر صدمہ نہیں ہو گا‘ اعصا ب پر تناؤ نہیں آئے گا۔ تو دراصل حضورﷺ کو دونوں گروہوں کے بارے میں بتا دیا گیا۔ اس کی تأویل عام کے لیے میں زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا‘ اس کا انطباق اور اطلاق آپ خود کر سکتے ہیں۔ یہ سارے کیریکٹر ہر دَور میں موجود رہے ہیں اور ہمارا دَور کوئی استثنائی دَور نہیں ہے۔
آنحضورﷺ سے خصوصی خطاب
اب چلیے‘ اس حال میں کرنا کیا ہے !فرمایا : {فَلِذٰلِکَ فَادۡعُ ۚ } ’’پس آپ اسی (دین) کی دعوت دیتے رہیں!‘‘ اب دیکھئے ‘ یہاں خطاب جمع کے صیغے سے نہیں ہے‘ واحد کے صیغے سے ہے۔ اس سے پہلے ایک فعل امر (اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ ) اور ایک فعل نہی (وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ) جمع کے صیغے میں آ چکے ہیں۔
اس لیے کہ یہ کام ایک آدمی کے کرنے کا نہیں ہے‘اس کے لیے مددگار درکار ہیں۔ اب آپ دیکھئے ‘یہ بھی ایک لطیف نکتہ ہے کہ صیغہ کیوں بدل گیا؟
وہاں جمع کیوں ہے اور یہاں واحد کیوں آ گیا؟ آپ یوں سمجھئے کہ یہ جو اَب احکام آ رہے ہیں‘ یہ اصلاً حضورﷺ کے لیے ہیں‘اور تبعاً ہر اُس شخص کے لیے جو بھی تاقیامِ قیامت اُمت محمدؐ میں سے اسی کام کو لے کر داعی کی حیثیت سے اٹھے گا۔ اس داعی کو اس ساری صورتِ حال کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔
اس کا سامنا جن لوگوں سے ہو گا ان میں اس اُمت کے مشرکین بھی ہوں گے اور اس اُمت کے یہود و نصاریٰ بھی ہوں گے۔ اور یہ یہود و مشرکین اس کی دشمنی میں اسی طرح شدید ترین ہوں گے جیسے قرآن حکیم میں فرمایا گیا : {لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الۡیَہُوۡدَ وَ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡا ۚ}(المائدۃ:۸۲)
’’تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے‘‘۔ چنانچہ تمام لوگوں میں سب سے شدید دشمن حضرت محمدﷺ اور اس دین کے یہودی تھے‘ حالانکہ ان کو توقریب ترین ہونا چاہیے تھا‘ اس لیے کہ ان کے ہاں علم کا چرچا تھا‘ ان کے ہاں فقہاء تھے‘ عالم تھے‘ قاضی تھے‘ مدینہ میں ان کی شرعی عدالتیں تھیں‘ لیکن بدترین دشمن وہ ہوئے‘ اور آج تک ہیں۔
تو ان حقائق کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے۔ تو یہاں اب اصلاً خطاب ہے محمدٌ رسول اللہﷺ سے صیغہ واحد میں‘ اور تبعاً یہ خطاب ہر اُس شخص سے ہے جو بھی کبھی تاقیامِ قیامت اُمت محمدﷺ میں سے ایک داعی کی حیثیت سے اسی کام کا بیڑا اٹھاکر کھڑا ہو گا۔ کسے باشد۔
32
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ خطاب کیا ہے : {فَلِذٰلِکَ فَادۡعُ ۚ} ’’تو اسی کی دعوت دیتے رہو‘‘۔ ’’ذٰلِکَ‘‘ اسم اشارہ ہے ‘ اس کا مشارٌ الیہ کیا ہے؟ {اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ } یعنی اقامتِ دین کی دعوت دیتے رہیے۔ آپ کم پر سودا نہ کیجیے گا۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ دباؤ سے متأثر ہو کر مداہنت اختیار کر لیں۔ سورۃ القلم میں فرما دیا تھا : {فَلَا تُطِعِ الۡمُکَذِّبِیۡنَ ﴿۸﴾وَدُّوۡا لَوۡ تُدۡہِنُ فَیُدۡہِنُوۡنَ ﴿۹﴾} کہ اے نبیؐ! آپ ان جھٹلانے والوں کی باتوں میں نہ آیئے! یہ تو چاہتے ہیں کہ آپؐ ذرا ڈھیلے پڑیں تو یہ بھی ڈھیلے ہو جائیں۔
.
They have tested your metal وہ پوری طرح ٹھونک بجا کر آپؐ کو دیکھ چکے ہیں کہآپؐ جھکنے والے نہیں ہیں‘ اور کسی تشدد‘ دباؤ یا کسی لالچ سے آپؐ کو جھکایا نہیں جا سکتا۔لہذا اب وہ پوری کوشش کریں گے کہ کوئی معاہدہ ہو جائے‘ کوئی لے دے کر صلح ہو جائے اور کچھ تو آپؐ کو اپنے مقام سے کھسکائیں۔
یہی بات سورۂ بنی اسرائیل (آیات ۷۳تا۷۵) میں بایں الفاظ فرمائی گئی:
{وَ اِنۡ کَادُوۡا لَیَفۡتِنُوۡنَکَ عَنِ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ لِتَفۡتَرِیَ عَلَیۡنَا غَیۡرَہٗ ٭ۖ وَ اِذًا لَّاتَّخَذُوۡکَ خَلِیۡلًا ﴿۷۳﴾}
’’(اے نبی!) یہ تو اس بات پر تلے ہوئے ہیں کہ آپ کو بچلا کر اس وحی سے پھیر دیں جو ہم نے آپ کی طرف بھیجی ہے تاکہ آپ ہمارے نام پر اپنی طرف سے کوئی بات گھڑ لیں۔ (اس سے کم پر کوئی مصالحت کر لیں‘ کچھ give & take کا معاملہ کر لیں) اور اگر آپ کہیں ایسا کر لیتے تو وہ ضرور آپ کو اپنا دوست بنا لیتے‘‘۔
اس طرح ان کا جھگڑا ختم ہو جاتا‘ اس لیے کہ ان کی اصل لڑائی تو اس قرآن سے ہے‘ آپؐ سے تو ان کی کوئی شخصی لڑائی نہیں ہے۔
{وَ لَوۡ لَاۤ اَنۡ ثَبَّتۡنٰکَ لَقَدۡ کِدۡتَّ تَرۡکَنُ اِلَیۡہِمۡ شَیۡئًا قَلِیۡلًا ﴿٭ۙ۷۴﴾}
’’اور اگر ہم نے ہی آپ کو جمائے نہ رکھا ہوتا تو بعید نہ تھا کہ آپ ان کی طرف کسی درجے میں جھک ہی جاتے‘‘۔
{اِذًا لَّاَذَقۡنٰکَ ضِعۡفَ الۡحَیٰوۃِ وَ ضِعۡفَ الۡمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ عَلَیۡنَا نَصِیۡرًا ﴿۷۵﴾}
’’اور اگر کہیں ایسا ہو جاتا تو پھر ہم آپ کو دوہری سزا دیتے دنیا کی اور دوہری سزا دیتے موت کی‘ پھر ہمارے مقابلے میں آپ کوئی مددگار نہ پاتے‘‘۔
لہذا یہاں فرمایا: اے نبیؐ! {فَلِذٰلِکَ فَادۡعُ ۚ وَ اسۡتَقِمۡ کَمَاۤ اُمِرۡتَ ۚ} ’’پس آپ اسی کی دعوت دیتے رہیے اور اسی پر مضبوطی سے ڈٹے رہیے جس طرح آپ کو حکم دیا گیا ہے‘‘۔
یہاں اب جس چیز کا حکم دیا جا رہا ہے وہ اقامت نہیں‘ استقامت ہے اور میں کہا کرتا ہوں کہ اس استقامت میں ایک قیامت مضمر ہے۔ آپ اپنی دعوت پر جمے رہیں‘کوئی آپ کو ہلا نہ سکے‘ آپ کو اپنے موقف سے بال برابر اِدھر سے اُدھر منحرف نہ کر سکے‘ جھکا نہ سکے‘ مداہنت پر آمادہ نہ کر سکے‘ کسی معاملے میں نرم نہ کر سکے۔
آپ کی کیفیت یہ ہو نی چاہیے جو {اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ } اور {اَعِزَّۃٍ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ } کے الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔لوگوں کو معلوم ہو کہ ایک چٹان ہے جس کو ہلایا نہیں جا سکتا‘ اس کو کہیں بھی جھکنے پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ہے اصل میں داعی کا مطلوبہ کردار۔
33
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
{وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَہُمۡ ۚ } ’’اور آپ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کیجیے‘‘۔
اس کا کوئی سوال نہیں تھا کہ حضورﷺ ان کی خواہشات کی پیروی کرتے‘ لیکن پھر بھی اصولی طور پر وارننگ دے دی گئی‘ اس لیے کہ یہ ہدایت صرف حضورﷺکے لیے نہیں‘ ہمارے لیے بھی تو یہی ہدایت ہے نا! حضورﷺ کے لیے یہ چیز اگر خارج از بحث بھی ہو جائے تو بعد میں آنے والے کسی داعی کے لیے تو خارج از بحث نہیں ہے کہ وہ کسی مداہنت یا compromise پر آ جائے‘ کہیں کوئی شارٹ کٹ نکالنے پر آ جائے‘ کہیں اپنے اصولوں کے اندر کتر بیونت کرنے پر آ جائے ‘تو یہ اس کے لیے راہنمائی ہے۔
یہاں بھی ’’اتباع‘‘ کا لفظ آیا ہے جو سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۲۰ میں آیا ہے : {وَ لَنۡ تَرۡضٰی عَنۡکَ الۡیَہُوۡدُ وَ لَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمۡ ؕ} ان کی کیا ملت ہے! ان کی تو خواہشات ہیں‘ ملت تو یہ ہے‘ دین یہ ہے‘ حق یہ ہے جو آپؐ پر نازل ہوا ہے۔ اب اگر یہ آپؐ پر دباؤ ڈال رہے ہیں‘ آپ کو pressurize کر رہے ہیں تو کس چیز کی طرف؟ اپنی خواہشِ نفس کی طرف!
{وَ قُلۡ اٰمَنۡتُ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنۡ کِتٰبٍ ۚ } ’’ اور(ڈنکے کی چوٹ)کہہ دیجیے مَیں تو ایمان رکھتا ہوں اس کتا ب پر جو اللہ نے نازل فرمائی‘‘۔
یہاں یہ ’’مِنۡ ‘‘ تبعیضیہ نہیں ہے کہ کتاب کے ایک حصے پر ایمان رکھتا ہوں‘ بلکہ یہ مِنْ بیانیہ ہے‘ یہ ’’بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ ‘‘ کا بیان ہے‘ یعنی وہ کتاب جو اللہ نے نازل فرمائی ہے‘ میرا ایمان تو اس پر ہے‘ میں اس پر ڈٹا ہوا ہوں‘ میں اس سے نہیں ہٹوں گا۔ اسی قرآن سے تو وہ آپﷺ کو بچلانے کی فکر میں تھے‘ اسی کے لیے وہ زور لگا رہے تھے‘ تاکہ آپؐ(معاذ اللہ)کوئی چیز اپنی طرف سے گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کر دیں۔
یہی بات سورۂ یونس (آیت ۱۵) میں بھی آئی کہ اے نبیؐ! وہ آپ سے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ {ائۡتِ بِقُرۡاٰنٍ غَیۡرِ ہٰذَاۤ اَوۡ بَدِّلۡہُ ؕ } ’’اس کے بجائے کوئی اور قرآن لایئے یا اس میں کچھ ترمیم کیجیے‘‘۔ {قُلۡ مَا یَکُوۡنُ لِیۡۤ اَنۡ اُبَدِّلَہٗ مِنۡ تِلۡقَآیِٔ نَفۡسِیۡ ۚ } ’’کہہ دیجیے کہ میرے لیے ہرگز ممکن نہیں ہے کہ میں اپنے جی سے اس میں کوئی تغیر و تبدل کر لوں‘‘۔
{اِنۡ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوۡحٰۤی اِلَیَّ ۚ } ’’میں تو بس اُسی وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے‘‘۔
میں تو خود وحی ٔ الٰہی کا پابند ہوں۔
میں تو خود عبد ہوں‘ معبود تو نہیں ہوں‘ میں حاکم تو نہیں ہوں‘ میں تو اللہ کا محکوم ہوں‘ لہذا میں وحی ٔ الٰہی میں ترمیم کیسے کر دوں؟
وہی بات یہاں فرمائی جا رہی ہے : {وَ قُلۡ اٰمَنۡتُ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنۡ کِتٰبٍ ۚ } ’’اورکہہ دیجیے میرا پختہ یقین ہے اس پر جو اللہ نے نازل فرمایا‘ یعنی کتاب‘‘۔ البتہ اس کتاب میں قرآن بھی شامل ہے اور تورات اور دوسری آسمانی کتب کا وہ حصہ بھی شامل ہے جو وحی ٔ الٰہی پر مشتمل ہے۔ ان سب پر ہمارا ایمان ہے‘ ازروئے الفاظِ قرآنی : {وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ}۔
آنحضورﷺ کی دعوت کا اصل ہدف
34
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگے فرمایا: {وَ اُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ ؕ } ’’اور مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ تمہارے مابین عدل کروں‘‘۔ اس ضمن میں آپ کو متداول تفاسیر میں تھوڑا سا ابہام ملے گا۔
اکثر مفسرین نے یہ سمجھا ہے کہ ’’لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ‘‘ سے مراد یہود اور نصاریٰ کے مابین عدل ہے کہ ان کے جو تفرقے تھے ان میں کون کس معاملے میں حق پر ہے۔
یعنی مجھے حکم ہوا ہے کہ بجائے اس کے کہ میں تمہاری پیروی کروں‘میں تو خود تمہارے معاملے میں عدل اورانصاف کرنے آیا ہوں۔ اس مفہوم کا تعلق آیت ماسبق (آیت ۱۴) سے جڑ جاتا ہے : {وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّکَ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی لَّقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ ؕ } کہ اگر ایک وقت معین نہ ہو گیا ہوتا اور بات پہلے سے طے نہ ہو چکی ہوتی تو ابھی ان کا قصہ چکا دیا جاتا۔
لیکن اے نبیؐ آپ کہہ دیں کہ میں تمہارے مابین عدل کر سکتا ہوں‘ میں تمہیں بتاؤں گا کہ کیا درست ہے‘ کیا باطل ہے! یہود کس معاملے میں غلط چلے گئے ہیں اور نصاریٰ نے کس معاملے میں غلو کیا ہے‘ اُن کی گمراہی کیا ہے‘ تمہاری غلطی کیا ہے۔
تو اس مفہوم کے اندر بھی بالکل کوئی حرج نہیں ہے ۔لیکن میرے نزدیک اس ’’عدل‘‘ کا تعلق بھی اقامت دین سے ہے‘ کہ دین اس لیے آیا ہے کہ لوگ عدل پر قائم ہوں۔
میں نے درس کے آغاز میں عرض کیا تھا کہ سورۃ الشوریٰ اور سورۃ الحدید میں گہری مماثلت ہے اور یہ کہ ’’الکتاب‘‘ اور ’’المیزان‘‘ کے دو الفاظ جمع ہو کر قرآن مجید میں صرف ان دو سورتوںمیں آئے ہیں۔
چنانچہ اس سورۂ مبارکہ کی اگلی آیت (نمبر۱۷) میں یہ الفاظ آرہے ہیں: {اَللّٰہُ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ وَ الۡمِیۡزَانَ ؕ} اور سورۃ الحدید (آیت ۲۵) میں ارشاد ہوا : {لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ } ’’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں‘‘۔
ہم نے قرآن نازل کیا‘ دوسری کتابیں نازل کیں‘ رسول بھیجے‘ شریعتیں نازل کیں اور میزان اتاری آخر کس لیے؟اس لیے کہ اسے نصب کرو! دین اس لیے دیا کہ اسے قائم کرو! شریعت اس لیے دی کہ اسے نافذ کرو! حدود اس لیے دیں کہ ان کا اجراء کرو! اگر یہ نہیں کرتے ہو تو یہ سب کھیل ہے‘ تماشا ہے‘ hobby ہے‘ پیشہ ہے‘ کاروبار ہے!
تو یہ سمجھ لیجیے کہ اقامت دین کا اصل مقصد اقامتِ عدل و قسط ہے۔ {لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ } ’’تاکہ لوگ عدل پر کاربند ہوں‘‘ اور اگر کوئی اس میں آڑے آتا ہے تو بگڑے تگڑوں کے علاج کے لیے ہم نے تلوار بھی اتاری۔ {وَ اَنۡزَلۡنَا الۡحَدِیۡدَ ۔۔۔}
35
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چنانچہ {وَ اُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ ؕ } کا مفہوم سمجھنے کے لیے سورۃ الحدید کی آیت ۲۵ کو یہاں مندرج مانیے، یہ عدل صرف نصاریٰ اور یہود کے مابین نہیں ہے‘ یہ عدل تو طبقات کے مابین ہے‘ یہ عدل مرد اور عورت کے مابین ہے‘ یہ عدل جماعت اور فرد کے مابین ہے‘ یہ عدل اجتماعیت اور انفرادیت کے مابین ہے‘ یہ عدل سرمائے اور محنت کے مابین ہے‘ یہ عدل حکومت اور شہریوں کے مابین ہے۔
چنانچہ ہر اعتبار سے عدل و توازن اورمیزان کو نصب کرنے اور عدل وقسط کے نظام کو قائم کرنے کے لیے آئے ہیں محمدٌ رسول اللہﷺ۔ گویا محمدٌ رسول اللہﷺکا اعلان یہ تھا کہ تم مجھے محض واعظ نہ سمجھو‘ میں تمہارے مابین عدل قائم کرنے کے لیے آیا ہوں۔
ایک واعظ کی دعوت اور رسول کی دعوت میں بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ وعظ کہنے والا وعظ کہتا ہے‘ لفاظی کے جوہر دکھاتا ہے‘ اپنے اسلوبِ بیان کا لوگوں کو نظارہ کراتا ہے اور پھر وہ اپنا راستہ لیتا ہے۔ اگلی منزل پر پہنچ کر وہ پھر اپنا وعظ کہتاہے۔
لوگ اس کی خوب آؤ بھگت کرتے ہیں‘ اس لیے کہ وہ لوگوں سے یہ نہیں کہتا کہ ٹھیک ہو جاؤ‘ اپنے سودی کاروبار چھوڑ دو! اگر یہ کہے گا تو اسے کون حلوہ کھلائے گااور کون نذرانے پیش کرے گا؟ واعظ کا کام یہ ہے کہ بات کہی اور ’’وَمَا عَلَیْنَا اِلاَّ الْبَلَاغُ‘‘ پر ختم کر دی۔
اب تم جانو اور تمہارا کام‘ ہم تو جا رہے ہیں۔لیکن نبی ورسول کی دعوت اور وہ دعوت جو علیٰ منہاج النبوۃ ہو گی وہ بنیادی طور پر مختلف ہے۔
اس لیے کہ وہ تو عدل قائم کرنے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں‘جیسا کہ سورۃ النساء میں ارشاد ہوا : {یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ}(آیت ۱۳۵)
’’اے ایمان والو! انصاف کے علمبردار‘ اللہ کے لیے گواہ بن کر کھڑے ہو جاؤ!‘‘ جبکہ سورۃ المائدۃ میں یہی بات ان الفاظ میں فرمائی گئی : {یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۫}(آیت ۸)
بات ایک ہی ہے‘ ترتیب بدل گئی۔ مضمون وہی ہے‘ ترتیب عکسی ہو گئی۔
حجت بازی سے کنارہ کشی کا اصل الاصول
اب آگے خطاب کا جو انداز آ رہا ہے اس میں ان لوگوں کے لیے جو دین کے خادم ہونے کے مدعی ہوں ‘بہت بڑا سبق ہے۔
ہم بچپن میں مُٹھیوں پر مُٹھیاں رکھ کر کھیل کھیلا کرتے تھے ’’ آم والے آم دے آم ہیں سرکار کے ہم بھی ہیں دربار کے‘‘۔
تو اس جدوجہد میں ہم کوئی غیر تھوڑا ہی ہیں!
تم دین کا کام کر رہے ہو تو ہم بھی کر رہے ہیں ۔
36
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دین کی خدمت تم بھی کر رہے ہو ‘ ہم بھی کر رہے ہیں! تو اس کی نفی نہ کیجیے‘ اس کو recognize کیجیے کہ اگر تم بھی واقعتا دین ہی کا کام کر رہے ہو تو ہمارا تم سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔
یہ انداز نہ ہو کہ تم کہاں سے دین کے نئے نویلے ٹھیکے دار آگئے؟یہ ضرور ہے کہ طریق کار میں اختلاف ہو سکتا ہے‘ لیکن اگر دین ہی کے لیے تم کام کر رہے ہو اور دین ہی کے لیے ہم کر رہے ہیں تو جھگڑا کا ہے کا؟ تو فرمایا : {اَللّٰہُ رَبُّنَا وَ رَبُّکُمۡ ؕ} ’’اللہ ہی ہمارا ربّ بھی ہے اور تمہارا ربّ بھی!‘‘ {لَنَاۤ اَعۡمَالُنَا وَ لَکُمۡ اَعۡمَالُکُمۡ ؕ } ’’ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال‘‘۔
اگر ہم سے کچھ غلطیاں سرزد ہوئی ہیں تو ان کا وبال تم پر نہیں جائے گا اور تم اگر صحیح راستے پر ہو تو تمہارا اجر و ثواب تمہی کو ملے گا‘ اس میں سے ہم حصہ نہیں بٹوا سکیں گے۔ {لَا حُجَّۃَ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ ؕ } ’’ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ہے‘‘-
آپس میں کوئی دلیل بازی‘ کوئی جھگڑا ‘ کوئی فساد‘ کوئی ایک دوسرے کو اڑنگا لگانا آخر کس لیے؟
اس آیت میں دعوت و اقامت دین کی جدوجہد کے لیے قائم ہونے والی جماعت یا تنظیم کے لیے یہ ہدایت ہے کہ اس مقصد کے لیے جو بھی دوسری ہم عصر دینی تنظیمیں اور تحریکیں کام کر رہی ہوں ان کے ساتھ کیا طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے۔
اس ضمن میں یہ قرآن حکیم کا اہم ترین مقام ہے۔ {اَللّٰہُ رَبُّنَا وَ رَبُّکُمۡ ؕ لَنَاۤ اَعۡمَالُنَا وَ لَکُمۡ اَعۡمَالُکُمۡ ؕ لَا حُجَّۃَ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ ؕ } ’’اللہ ہی ہمارا بھی ربّ ہے اور تمہارا بھی ربّ ہے‘ ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ہیں‘ ہمارے اور تمہارے مابین کوئی جھگڑا نہیں ہے‘‘۔
تم جو محنت کر رہے ہو اگر صحیح ہے تو اس کا اجر و ثواب تمہی کو ملے گا‘ ہم اس میں سے کچھ claim نہیں کر سکتے اور اگر ہم کوئی غلط کام کر رہے ہیں تو اس کا وبال ہم پر ہی آئے گا‘ تم پر نہیں جائے گا۔
تو جھگڑا کاہے کا ہے!یہ آپس کی حجت بازی‘ آپس میں سر پھٹول‘ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہونا‘ آپس میں بحث و تکرار‘ آپس میں مناظرہ اور مجادلہ آخر اس کاکیافائدہ!
{اَللّٰہُ یَجۡمَعُ بَیۡنَنَا ۚ } ’’اللہ ہمارے مابین جمعیت پیدا فرما دے گا‘‘ ۔عجیب نکتہ ہے کہ یہاں ’’یَجْمَعُنَا‘‘ نہیں فرمایا کہ ’’اللہ ہمیں جمع کر دے گا‘‘ ۔اس مفہوم کے لیے
یہاں ’’بَیۡنَنَا ‘‘ کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔بلکہ ذرا سا فصل کر دیا کہ {اَللّٰہُ یَجۡمَعُ بَیۡنَنَا ۚ } ’’اللہ ہمارے مابین جمعیت پیدا کر دے گا‘‘۔
37
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس میں اس بات کی طرف لطیف اشارہ ہے کہ ایک ہوتا ہے جماعتوں کا یاافراد کا جمع ہو جانا‘ متحد ہو جانا‘ جبکہ ایک ہوتا ہے کام کا کسی ایک کھاتے میں جمع ہوتے رہنا۔
اگر تم بھی دین کا کام کر رہے ہو اور ہم بھی کر رہے ہیں تو کام تو جمع ہو رہا ہے!مثال کے طور پر دیکھئے کہ اگر کوئی نوجوان جماعت اسلامی یا اسلامی جمعیت طلبہ کے ذریعے دین کے قریب آ گیا اور کوئی دوسرا تبلیغی جماعت کے ذریعے دین کے قریب آ گیا تو دونوں صورتوں میں کام تو دین ہی کا ہوا۔
یہ جماعتیں اگر اتحاد نہ کریں‘ جمع نہ ہوں‘ پھر بھی کام تو جمع ہو رہا ہے۔
کم از کم اس بات کو اپنے ذہن میں رکھو تو باہم دست و گریبان ہونے میں وقت ضائع نہیں کرو گے۔
اگر ہمارا ہدف ایک ہے اور اہم ایک ہی منزل کی طرف جا رہے ہیں تو جتنا آگے بڑھیں گے قریب تر آئیں گے۔
بہت سی جماعتوں اور تنظیموں کا دعویٰ یہ ہے کہ ہم دین کا کام کر رہے ہیں‘ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم بھی دین کا کام کر رہے ہیں‘ تو ہدف تو ایک ہوا نا! توفرض کیجیے اس وقت ہماری approaches مختلف ہیں‘ ہم مختلف راستوں سے اس ہدف پر جا رہے ہیں‘ لیکن اگر ہدف ایک ہے تو جتنا آگے بڑھیں گے‘ قریب تر ہوں گے یا بعید تر ہوں گے؟
اس کے لیے میں منیٰ اور عرفات کی مثال دیا کرتا ہوں۔ آپ اندازہ کریں کہ پچیس تیس لاکھ افراد منیٰ سے عرفات کی طرف move کر رہے ہیں۔ تقریباً چھ میل کا فاصلہ ہے اور وقت بڑا محدود ہے جس میں وہاں پہنچنا ہے۔ جو وہاں پہنچنے سے رہ گیا اس کا حج ہی رہ گیا۔
اس لیے کہ ازروئے حدیث نبویؐ ((اَلْحَجُّ عَرفَۃُ))(۱)
حج تو نام ہی عرفہ کا ہے۔کوئی اور چیز رہ جائے تو اس کی تلافی ہو سکتی ہے‘ لیکن عرفہ کا وقوف نہیں کیا تو حج ہی نہیں ہوا۔ اُس وقت کیا قیامت ہوتی ہے! یہی وجہ ہے کہ وہاں پر اب چھ چھ‘ آٹھ آٹھ سڑکیں بنا دی گئی ہیں جو مختلف راستوں سے جا رہی ہیں۔
کوئی اس پہاڑ کے اُدھر سے جا رہی ہے‘ کوئی اس پہاڑکے اِدھر سے جا رہی ہے‘ کوئی اس پل کے نیچے سے نکل رہی ہے۔ پھر وہ سڑکیں بھی اتنی چوڑی چوڑی ہیں کہ فٹ بال کے گراؤنڈ معلوم ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کے اوپر ایک اژدھام چل رہا ہے۔ قافلے رواں دواں ہیں۔
پیدل جانے والوں کے لیے الگ راستے مختص ہیں اور ٹریفک کے لیے الگ سڑکیں ہیں۔ جو قافلے پیدل جا رہے ہیں انہوں نے جھنڈے اٹھا رکھے ہیں تاکہ اس نشانی کو دیکھ کر اس قافلے کے لوگ جمع رہیں۔
38
حذب اللہ کے اوصاف ، و غلبہ وا قامت دین کے معنی و مفہوم ، از قلم ڈاکٹر اسراراحمد رح
ایک دوسری اصطلاح اقامت دین ہے ‘ جو سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری اصطلاح مدنی سورتوں میں سورۃ الانفال اور سورۃ البقرۃ میں آئی ہے‘ لیکن سورۃ الانفال میں زیادہ کامل شکل میں آئی ہے۔ فرمایا: {وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ}(آیت ۳۹)"ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ وفساد بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ یہ درحقیقت تین مزید اصطلاحات ہیں جو ’’اظہار دین الحق علی الدّین کلہٖ‘‘ ہی کے مفہوم کو ادا کر رہی ہیں‘ صرف یہ کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو اگرچہ وہ قافلے جدا ہیں‘ ان کے عَلَم جدا ہیں‘ سڑکیں جدا ہیں‘ لیکن منزل سب کی ایک ہے۔ تو اس concept کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ جھگڑا کاہے کا ہے‘ لڑائی کاہے کی ہے‘ دنگا فساد کی کیا ضرورت ہے۔ {اَللّٰہُ یَجۡمَعُ بَیۡنَنَا ۚ } ’’اللہ ہمارے مابین جمعیت پیدا فرما دے گا‘‘۔
__________________________
(۱) سنن الترمذی’ کتاب الحج‘ باب ما جاء فیمن ادرک الامام بجمع فقد ادرک الحج
{وَ اِلَیۡہِ الۡمَصِیۡرُ ﴿ؕ۱۵﴾} ’’اور اُسی کی طرف (سب کو) جانا ہے‘‘۔ اگر ہم یہاں نہ بھی جمع ہوئے تو قیامت کے میدان میں تو جمع ہوں گے ہی! وہاں دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔ کیوں بے صبرے ہو رہے ہو؟کیا ضروری ہے کہ سارے قضیے یہیں چکا دیے جائیں! آخر میدانِ حشر میں بھی تو جمع ہوں گے۔ لوٹنا تو اللہ ہی کے پاس ہے۔ وہاں تو ہم جمع ہو کر ہی رہیں گے۔
تو اب یہ جمعیت کے تین درجے ہو گئے:
(۱) ہم علیحدہ علیحدہ رہتے ہوئے اپنے اپنے طور پر کام کر رہے ہیں تو کام اسلام ہی کے حق میں جمع ہو رہا ہے۔
(۲) اگر ہم بھی آگے بڑھیں اور آپ بھی آگے بڑھیں‘ چاہے اپنے اپنے طریقہ کار پر بڑھیں‘ فاصلہ تو لازماً کم ہو گا اور کیا عجب کہ ہم‘ physically بھی جمع ہو جائیں۔
(۳) اور یہاں جمع نہ ہوئے تو وہاں قیامت میں تو جمع ہونا ہی ہے۔ وہاں فیصلہ ہو جائے گا کہ کون کتنے پانی میں تھا‘ کون واقعی اسی ہدف کو معین کر کے چل رہا تھا ۔تو بے صبری کی ضرورت نہیں۔ یہ تین آیات (۱۳تا۱۵) میرے نزدیک اقامتِ دین کے موضوع پر قرآن مجید کا ذروۂ سنام یعنی کلائمکس ہیں۔
٭ ٭ ٭
MachaAllah
Without lies Islam dies
Love your videos Dr.Zakir Naik sir ❤❤❤